بکنے لگتا ہوں تو بازار کا دُکھ مارتا ہے
یوں مجھے اپنے خریدار کا دکھ مارتا ہے
مفلسی دیکھی ہے اِتنی کہ مجھے آج بھی دوست
ہر کسی بے کس و نادا کا دُکھ مارتا ہے
جانے کو اٹھ کے چلا جاٶں مگر سوچتا ہوں
ہائے افسوس کہ بیمار کا دُکھ مارتا ہے
اپنے ہی مدِ مقابل ہیں مرے اور مجھے
زخم دیتی ہوئی تلوار کا دُکھ مارتا ہے
دیس کو چھوڑ کے پردیس چلا آیا ہوں
مجھ کو ہجرت کا نہیں یار کا دُکھ مارتا ہے
میں محبت کے لیے گھر سے نکل پڑتا مگر
مجھ کو در کا نہیں دیوار کا دُکھ مارتا ہے
اک طرف اجڑے پرندوں کی اداسی فیصل
اس پہ کٹتے ہوئے اشجار کا دُکھ مارتا ہے
فیصل شہزاد