تجھ کو لگتا ہے عارضی دکھ ہے
اس کے چہرے پہ داٸمی دکھ ہے
تیرگی سے تو اس کو رغبت ہے
اس کی آنکھوں کی روشنی دکھ ہے
بے ٹھکانہ رہا ہے برسوں سے
اک مسافر کی بے گھری دکھ ہے
اک سمندر ہے جو کہ چاہت کا
اس کے جذبوں کی تشنگی دکھ ہے
کوٸی سکھ بھی ملا نہ جیون سے
واسطے اس کے زندگی دکھ ہے
جاں کنی بھی عذاب ہے جس پر
اس سے کہہ دو یہ آخری دکھ ہے
مار کر چھاٶں میں نہیں ڈالا
ہاٸے اپنوں کی بے حسی دکھ ہے
عاصمہ فراز