ہے زباں زد جو سکندر ہو چکا لشکر سمیت
سر بھی اس کا کھپ گیا آخر کو یاں افسر سمیت
چشمے آب شور کے نکلا کریں گے واں جہاں
رکھیں گے مجھ تلخ کام غم کو چشم تر سمیت
ہم اٹھے روتے تو لی گردوں نے پھر راہ گریز
بیٹھ جاوے گا یہ ماتم خانہ بام و در سمیت
مستی میں شرم گنہ سے میں جو رویا ڈاڑھ مار
گر پڑا بے خود ہو واعظ جمعہ کو منبر سمیت
بعث اپنا خاک سے ہو گا گر اس شورش کے ساتھ
عرش کو سر پر اٹھالیوں گے ہم محشر سمیت
کب تلک یوں لوہو پیتے ہاتھ اٹھا کر جان سے
وہ کمر کولی میں بھرلی ہم نے کل خنجر سمیت
گنج قاروں کا سا یاں کس کے کنے تھا سو تو میر
خاک میں ملتا ہے اب تک اپنے مال و زر سمیت
میر تقی میر