فغاں تخلص ، اشرف علی خان نام ،احمد شاہ بادشاہ کے کوکہ تھے ، لطیفہ گوئی کا یہ عالم تھا کہ زبان سے پھلجھڑی کی طرح پھول جھڑتے تھے ،اس لئے ظریف ال ملک کوکہ خان خطاب تھا ، اگرچہ شاعری پیشہ نہ تھے مگر شعر کا مزہ ہی ایسا ہے کہ اس کے چٹخارے کے سامنے سارے مزے بے مزہ ہو جاتے ہیں – ان کے کمال کی سند اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ مرزا رفیع سودا جیسے باکمال شاعر ان کے اشعار مزے لے لے کر پڑھا کرتے تھے او بہت تعریف کیا کرتے تھے-
ایک دن راجا صاحب کے دربار میں غزل پڑھی جسکا قافیہ تھا لالیاں اور جالیاں ،سب سخن فہموں نیں بڑی تعریف کی ،راجا صاحب کی صحبت میں جگنو میاں ایک مسخرے تھے ، انکی زبان سے نکلا کہ نواب صاحب سب قافیے آپ نے باندھے مگر تالیاں رہ گئیں -انہوں نے ٹال دیا اور کچھ جواب نہ دیا -راجا صاحب نیں خود فرمایا کہ نواب سنتے ہو ؟جگنو میاں کیا کہتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مہاراج اس قافیے کو مبتذل سمجھ کر چھوڑ دیا تھا اور حضور فرمائیں تو اب بھی ہو سکتا ہے-مہاراج نے کہا ہاں کچھ کہنا تو چاہئے ، انہوں نے اسی وقت پڑھا
جگنو میاں کی دم جو چمکتی ہے رات کو
سب دیکھ دیکھ اس کو بجاتے ہیں تالیاں