آخر دکھائی عشق نے چھاتی فگار کر
تصدیع کھینچی ہم نے یہ کام اختیار کر
اس باعث حیات سے کیا کیا ہیں خواہشیں
پر دم بخود ہی رہتے ہیں ہم جی کو مار کر
ٹک سامنے ہوا کہ نہ ایماں نہ دین و دل
کافر کو بھی نہ اس سے الٰہی دوچار کر
جا شوق پر نہ جا تن زار و نزار پر
اے ترک صید پیشہ ہمیں بھی شکار کر
وہ سخت باز دائو میں آتا نہیں ہے ہائے
کس طور جی کو ہم نہ لگا بیٹھیں ہار کر
ہم آپ سے گئے تو گئے پر بسان نقش
بیٹھا تو روز حشر تئیں انتظار کر
کن آنکھوں دیکھیں رنگ خزاں کے کہ باغ سے
گل سب چلے ہیں رخت سفر اپنا بار کر
جل تھل بھریں نہ جب تئیں دم تب تئیں نہ لیں
ہم اور ابر آج اٹھے ہیں قرار کر
اک صبح میری چھاتی کے داغوں کو دیکھ تو
یہ پھول گل بھی زور رہے ہیں بہار کر
مرتے ہیں میر سب پہ نہ اس بیکسی کے ساتھ
ماتم میں تیرے کوئی نہ رویا پکار کر
میر تقی میر