ذرا ذرہ خاک کا، مجھ ٹاپ سے مہمیز ہے
سوچتا رہتا ہوں کیا یہ اشتیاق انگیز ہے؟
پیتا جاتا ہوں اور اس جانب کھنچا جاتا ہوں میں
قطرہ قطرہ جامِ غم کا کیسا عشق آمیز ہے !
اپنی لے میں پیر دھر، اس رات کے آشوب سے
تیری خوش نظری کو کیا؟ تُو بادِ صبح خیر ہے
کل دکھا ہم کو سرِ راہے وہ خوش طرز و مزاج
بول اٹھتا ہے تو رومی، چپ ہے تو تبریز ہے
جھنجھلا کر اس تہی اسرار سے بولا کہ "جا!
تُو ابھی تک نشہ ہائے گفت سے لبریز ہے”
ہر زمانی قید سے آزاد لیکن کس طرح؟
اس طرح کہ نور ہے اور روشنی سے تیز ہے!
سیکھ ہی لی دشت نے سرشار ہونے کی ادا
دیکھنے میں نہرِ غم، اعجاز میں کاریز ہے
ماہ نور رانا