- Advertisement -

بستر ہے ناتواں سا جوتا ہے بے سلائی

ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما

بستر ہے ناتواں سا جوتا ہے بے سلائی

Joy is found not in finishing an activity but in doing it
Greg Anderson
مسرت کا خزانہ مہم کے اختتام پر نہیں ، اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے نصیب ہوتا ہے
گریگ اینڈرسن

موبائل فون کے الارم سے آنکھ کھلی تو شام کے سائے ڈھل چکے تھے لیکن غنودگی کے سائے بدستور منڈلا رہے تھے۔ پنڈی سے گلگت تک نان اے۔سی بس میں سفر کرنا انتہائی ’’غیر شریفانہ ‘‘ حرکت ہے اور اس طویل حرکت کے دوران جسم پر کئی درد ناک ’’مقامات‘‘ نمودار ہو جاتے ہیں ۔ فضائی سفر اس حرکت میں برکت کا باعث بن سکتا ہے لیکن پنڈی سے گلگت کی پرواز موسم پر انحصار کرتی ہے۔ سیزن کے دوران موسم کے تیور مسلسل بگڑے رہتے ہیں اور یہ پرواز باقاعدگی کے ساتھ منسوخ ہونے کی عادی ہو چکی ہے۔ عرفان کے بیان کردہ ٹریکنگ کے پہلے اصول کے مطابق کفایت شعاری ٹریکنگ کا اٹوٹ انگ ہے۔ ٹیم کا کوئی رکن اگر اس لئے ’’منسوخ‘‘ کر دیا جاتا ہے کہ وہ فضائی سفر کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا تو ٹیم کے اراکین کو کسی خوبصورت سی جھیل میں ڈوب مرنا چاہیے۔
بیدار ہونے کے بعد ٹریک کے لوازمات کا جائزہ لیا گیا۔عرفان نے ہمارے سامان کا معائنہ فرما یااور بیہوش ہوتے ہوتے بچا۔
’’آپ لوگ دیانتر پاس ٹریک کے لئے نکلے ہیں یا چنار باغ میں چہل قدمی کرنے تشریف لائے ہیں ؟‘‘ اُس نے ناگواری سے سوال کیا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ بھٹہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں آستینیں چڑھاتے ہوئے اس سے بھی زیادہ نا گوار اور جارحانہ لہجہ اختیار کیا۔
’’دیانتر پاس باقاعدہ ٹریک ہے اور باقاعدہ ٹریک کے لئے پینتیس تا پینتالیس لیٹر کی گنجایش والے رُک سیک کی سفارش کی جاتی ہے۔آپ حضرات اپنے اپنے بچوں کے سکول بیگ اٹھا لائے ہیں ۔‘‘
’’رک سیک کی گنجایش لیٹر سے ناپی جاتی ہے؟‘‘ بھٹہ صاحب حیران ہوئے۔ ’’ہم اس میں کپڑے رکھیں گے یا دودھ اور پانی ڈالیں گے؟‘‘
’’رک سیک کی گنجایش لیٹر سے ہی ماپی جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ بستر بھی تبلیغی جماعت والوں سے مانگ کرلائے ہیں ۔آپ کا خیال ہے کہ دیانتر پاس ٹاپ پریہ سلیپنگ بیگ کام دے جائے گا؟‘‘
’’بے شک۔‘‘
’’لگتا ہے آپ چار ہزار سات سو میٹر بلندی پر رات کے درجہ حرارت سے واقف نہیں ۔‘‘
’’اور آپ اس بیگ کی کرامت سے واقف نہیں ۔وہاڑی کے امیر حضرت اسماعیل شاہ بخاری نے خصوصی دعائیں پڑھ کر دم کیا ہے۔ آپ چار ہزار میٹر کی بات کر رہے ہیں ، یہ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی پر بھی کام آ سکتا ہے۔ یقین اور آزمائش شرط ہے۔‘‘
’’آپ کے سپورٹس شوز فٹ بال کھیلنے کے کام آ سکتے ہیں ٹریکنگ لئے ہرگز مناسب نہیں ۔ ایک ہی دن کی ٹریکنگ ان کے بخیے ادھیڑ دے گی۔‘‘ عرفان نے بھٹہ صاحب کے شوز کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
’’عرض کیا ہے … ۔‘‘ میں نے کنکھارتے ہوئے عرض کرنے کی اجازت چاہی۔
’’فرمائیے۔‘‘ عرفان نے اکھڑے ہوئے لہجے میں اجازت دی۔
بستر ہے ناتواں سا جوتا ہے بے سلائی
دیانتر عبور کرنے ہم جا رہے ہیں بھائی
میں نے عرفان کی ٹینشن کم کرنے کی کوشش کی۔
’’میں اسی لئے اپنے ٹریکنگ شوز ساتھ نہیں لایا کہ آپ ان کا مذاق اڑائیں گے۔ ویسے بھی بھاری بھرکم جوتے پہن کر چلتے ہوئے بہت دشواری ہوتی ہے، میں جوگرز پہن کر دیانتر پاس عبور کروں گا۔‘‘ طاہر نے مسرت آمیز لہجے میں اطلاع دی۔
’’آپ کے پاس ٹریکنگ شوز ہیں ؟‘‘ عرفان نے مشکوک لہجے میں دریافت کیا۔
’’تھے … میری بیگم لنڈے کی چیزیں گھر میں رکھنے کی قائل نہیں ۔اُس نے یہ شوز کام والی کے شوہر کو دے دیئے۔وہ بے چارہ روزانہ سبزی منڈی سے گھر تک پیدل مارچ کرتا ہے۔ میں نے واپس مانگنے مناسب نہیں سمجھے۔‘‘
’’طاہر صاحب پلیز!یہ انتہائی سنجیدہ موضوع ہے۔‘‘
’’میں سو فیصد سنجیدہ ہوں ۔‘‘
’’سنجیدہ ہوتے تو لباس کے نام پر کاٹن کے کلف لگے کرتے اور شلوار نہ اُٹھا لاتے، آپ بر دکھوے پر تشریف لائے ہیں ؟‘‘
’’اس لباس میں کیا برائی ہے؟فوٹو شوٹو ذرا رعب دار قسم کے آ جائیں گے۔نانگا پربت بیس کیمپ ٹریک کے فوٹو دیکھ کر میری بیگم نے سوال کیا تھا کہ آپ سیر کرنے گئے تھے یا لنڈا بازار والوں کی شہرت دلاؤ مہم پر نکلے تھے۔‘‘
’’آپ کی بیگم ہیں یا … ۔‘‘
’’پلیز … پلیز … بیگمات کے بارے میں کوئی غیر پارلیمانی تبصرہ خلافِ قانون اور قابلِ سزا جرم ہے۔اس لئے جو فرمائیں سوچ سمجھ کر فرمائیں ۔‘‘
’’میں کوئی غیر پارلیمانی بیان نہیں دے رہا،لیکن آپ کاٹن کا کلف لگا سوٹ پہن کر دولھا بنے اور بارش شروع ہو گئی تو کیا ہو گا؟‘‘
’’ہو گا کیا؟ ٹریک کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔‘‘
’’کلف لگی کاٹن بھیگ کر بہت بھاری ہو جاتی ہے اور جلد خشک بھی نہیں ہوتی۔ کاٹن کا گیلا لباس پہن کر برفانی ہوا میں چند منٹ گزارنے پڑے تو نانی یاد آ جائے گی، اور کاٹن کے دو تین گیلے سوٹ رک سیک میں موجود ہوئے تو اسے اٹھا کر چلتے ہوئے پڑ نانی بھی یاد آ جائے گی۔ ٹریکنگ کے لئے نائلن یا پولسٹر کا لباس مناسب رہتا ہے جو نہایت ہلکا ہوتا ہے، پانی جذب نہیں کرتا اور بہت جلد خشک ہو جاتا ہے۔‘‘
’’یہ سب کچھ آپ کو پہلے بتانا چاہئے تھا۔ ‘‘ طاہر نے جھلاہٹ کا مظاہرہ کیا۔
’’میں نے ٹریک کیلئے درکار اشیاء کی فہرست ڈاکٹر صاحب کو ای۔میل کر دی تھی۔‘‘
’’کب ؟‘‘ مجھے اس سفید جھوٹ پر حیرانی ہوئی۔
’’پچھلے سے پچھلے سال، جب آپ سکردو گئے تھے۔‘‘
’’یا ر خدا کا خوف کرو۔ پچھلے دو سال میں تین مرتبہ میرے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک تبدیل ہو چکی ہے۔ میں اتنی پرانی چیزیں سنبھال کر رکھنے کا عادی نہیں ہوں ۔‘‘
’’لیکن آپ کو جو کچھ یاد تھا وہ بتا دیتے تاکہ ہم انتظام مکمل کر کے گھر سے نکلتے۔‘‘ طاہر نے شکوہ کیا۔
’’اچھا؟‘‘ میں نے حیرانی سے کہا۔ ’’میں نے کتنی مرتبہ کہا کہ ٹریک پر جوگر نہیں چلیں گے، ٹریکنگ شوز خرید لیں ۔آپ نے خریدے؟‘‘
’’کہاں سے خریدتا؟ عرفان صاحب کی ہدایت تھی کہ ٹیم سامان کی فکر نہ کرے،جو چیزیں کم ہوئیں گلگت سے خرید لی جائیں گی۔اب اتنی لمبی چوڑی بحث اور تنقید کیوں ہو رہی ہے آخر؟ جو چیز کم ہے خرید لی جائے۔‘‘
’’میرا خیال تھا جو چیزیں وہاڑی میں دستیاب نہیں ہیں وہ گلگت سے خرید لی جائیں گی۔ میں کیسے سوچ سکتا تھا کہ آپ نہایت اہم اشیاء کے اتنے اوٹ پٹانگ متبادل اٹھا لائیں گے۔ ہم نے ہر چیز گلگت سے خریدی تو سارا بجٹ یہیں ختم ہو جائے گا اور ہم دیانتر پاس عبور کرنے کے بجائے دومانی میں کافی پی کر ٹھنڈے ٹھنڈے واپس لوٹ جائیں گے۔‘‘ عرفان کے لہجے میں تلخی اور مایوسی کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔
’’سر جی بد شگونی نہ کریں ۔یہ نالائق اور نا اہل ٹیم اس انداز میں دیانتر پاس عبور کرے گی کہ آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔انگشت بدنداں کے معنی آتے ہیں آپ کو؟‘‘ میں نے ایک مرتبہ پھر ماحول کی سنگینی کم کرنے کی کوشش کی۔
’’بات نا لائقی یا نا اہلی کی نہیں ،غیر سنجیدگی اور لاپرواہی کی ہے۔‘‘
’’ہمیں نا تجربہ کار کہا جا سکتا ہے، غیر سنجیدگی یا لا پرواہی کا الزام نہیں دیا جا سکتا۔ غیر سنجیدہ ہوتے تو بھٹہ صاحب وہاڑی واپس جا چکے ہوتے۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’ڈاکٹر صاحب کے سامان میں کوئی خامی نہیں نکالی آپ نے۔‘‘ طاہر نے طنز کی۔
’’ڈاکٹر صاحب آدھی آستینوں کی دو ٹی شرٹس، ایک بوسیدہ ٹراؤزر اور واکنگ سٹک کے ساتھ دیانتر پاس ٹریک کرنے چلے آئے ہیں ۔ ان کے پاس نہ تو رین گیئر ہے اور نہ کوئی واٹر پروف جیکٹ، ان کی بزرگی کا خیال آڑے آ رہا ہے … ورنہ … ورنہ … ‘‘
’’ہم بلا وجہ وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ سامان کی خریداری جلد از جلد مکمل کر لینی چاہیے تاکہ ٹریک پروگرام کے مطابق مکمل ہو سکے۔‘‘ بھٹہ صاحب نے توجہ دلائی۔
’’ٹریک کیلئے درکار ذاتی سامان کی فہرست میرے پاس موجود ہے۔ آپ اس سے اپنے سامان کا موازنہ کر لیں اور جو چیزیں کم ہوں خرید لیں ۔ ‘‘ عرفان نے اپنے پرس سے ایک کاغذ نکال کر بھٹہ صاحب کی طرف بڑھایا۔
فہرست کے مطابق میرے پاس جیکٹ،میٹرس اور جرابوں کی کمی تھی۔ طاہر اور بھٹہ صاحب کو فہرست میں شامل بیش تر اشیاء درکار تھیں ۔ عرفان کا رک سیک تبدیل کرنے کا مشورہ ہم نے سنا ان سنا کر دیا اور پندرہ تا بیس لیٹر کے رک سیک ہی سے ٹریک مکمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ طاہر اور بھٹہ صاحب نے واکنگ سٹک فہرست سے حذف دی۔ان کا خیال تھا کہ وہ بزرگی کے اس درجے پر فائز نہیں ہوئے جہاں واکنگ سٹک کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ عرفان ہمارے خود سر فیصلوں پر تاؤ کھاتا رہا۔
گلگت کا کاروباری مرکز این۔ایل۔آئی مارکیٹ اور نیا بازار ہیں لیکن ٹریکنگ کے سامان کی اکثر دکانیں سینما بازار میں پائی جاتی ہیں ۔ سیزن کے دنوں میں گلگت سے ٹریکنگ کا سامان خریدنا اچھا خاصا مہنگا سودا ہے۔ دکاندار کو علم ہوتا ہے کہ ’’صاب ‘‘ کو سلیپنگ بیگ، ٹریکنگ شوز، ٹراؤزرز یا جیکٹ خریدنی ہے تو دکاندار کی منہ مانگی قیمت پر خریدنی ہے۔ صاب کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ۔’’امارے پاس نہیں پھنستا اے تو چار قدم آگے جا کے پھنستا اے‘‘ ۔ مختلف دکانوں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم محمد علی کی دکان پر پہنچے۔ محمد علی کی ’’ہنزہ ٹریکنگ اینڈ ماؤنٹینئرنگ ایکوئپمنٹ شاپ‘‘ میں ہماری ضرورت کی تمام اشیاء دستیاب تھیں اور اُن کی قیمتیں حسبِ بازار آسمان سے باتیں کر رہی تھیں ۔
محمد علی میانہ قامت اور قدرے بھاری جسم رکھنے والا شخص تھا جس کے لبوں سے ایک مستقل مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔اُس نے ہماری مطلوبہ اشیاء کاؤنٹر پر سجانے کے بعد سوال کیا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟
’’دیانتر پاس۔‘‘ عرفان نے مختصر جواب دیا۔
’’دیانتر پاس؟کس کے ساتھ جا تا اے؟‘‘ اُس نے عرفان کو مخاطب کیا۔
’’دیانتر نہیں ،دیانتر پاس۔اور ہم کسی کے ساتھ نہیں جا رہے ایک دوسرے کے ساتھ جا رہے ہیں ۔‘‘
محمد علی نے چھت شگاف قہقہہ لگایا۔
’’سر آپ ہمارے علاقے کا نام بولتا ہے اور ہمارا بات میں غلطیاں پکڑتا ہے۔ چلو ہم آپ کا بات مانتا ہے۔اب آپ بولو کہ دیانتر کا مطلب کیا ہے؟‘‘
’’مطلب؟میں نے کہیں پڑھا تو ہے،یاد نہیں آ رہا۔‘‘ عرفان کنفیوژ ہو گیا۔
’’سر یہ دیانتر نہیں ،دئینتر ہے۔ دئینترکا مطلب ہے ہرا بھرا جگہ۔‘‘
ہمیں پہلی مرتبہ علم ہوا کہ ہم دیانتر پاس نہیں ،دیانتر پاس عبور کرنے جا رہے ہیں ۔وہ دیانتر کے نون کو نون غنہ کے انداز میں ادا کر رہا تھا۔’’دئیں تر‘‘ ۔
ہم ایک ایسے ٹریک پر جا رہے تھے جس کے درست تلفظ سے ناواقف تھے۔
’’آپ کا گائیڈ کون ہے؟‘‘ محمد علی نے دریافت کیا۔
’’گائیڈ؟کوئی بھی نہیں ۔میرا خیال ہے کہ دیانتر یا دیانتر پاس ٹریک کے لئے گائیڈ کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘ عرفان نے جواب دیا۔
’’گائیڈ کا ضرورت آپ کو پڑے گا۔جیپ کا بندوبست کر لیا ہے؟‘‘
’’اب کریں گے۔‘‘
’’آپ بولے توہم اُس طرف کے گائیڈ اور جیپ والے کو آپ کی طرف بھیجے؟ آپ لوگ کدر ٹھہرا ہوا ہے؟‘‘
’’شکریہ۔ہم خود بندوبست کر لیں گے۔‘‘ عرفان نے معذرت کی۔
’’سر آپ لوگ ٹھہرا کدر ہے؟‘‘
’’سکائی ویز میں ۔ ‘‘ عرفان نے مختصر جواب دیا۔
محمد علی کی دکان سے سلیپنگ بیگ اور ٹریکنگ شوز نہیں مل سکے، ان کے علاوہ بیش تر سامان دستیاب ہو گیا۔ سلیپنگ بیگ اور ٹریکنگ شوز کی اچھی خاصی ورائٹی دستیاب تھی لیکن طاہر اور بھٹہ صاحب کے معیار پر پورا نہیں اترتی تھی۔ ان اشیاء کے لئے کئی دکانیں کھنگالی گئیں ۔ ایک دکان پر سلیپنگ بیگ مل گیا اور طاہر کو پسند بھی آ گیا۔ ادائیگی سے فوراً پہلے اُسے ایک سٹکر نظر آیا اور اُس نے سلیپنگ بیگ مسترد کر دیا۔
’’میں پیوند لگا بیگ استعمال نہیں کر سکتا۔‘‘
’’یار یہ پیوند نہیں سٹکر ہے۔‘‘ عرفان نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’سٹکر اتنی بے تکی جگہ پر کیوں لگا یا گیا ہے؟ بیگ یقیناً اس جگہ سے پھٹ گیا ہو گا جسے چھپانے کیلئے سٹکر استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
’’یہ تقریباً نیا بیگ ہے،اس کے پھٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ممکن ہے سگریٹ وغیرہ کا داغ چھپانے کیلئے سٹکر استعمال کیا گیا ہو، لیکن سٹکر ایسی جگہ نہیں لگایا گیا کہ بیگ کی کارکردگی متاثر ہو۔یقین کریں اتنی اعلیٰ کوالٹی کے سلیپنگ بیگ آسانی سے نہیں ملتے، اور پندرہ سو میں تو بالکل نہیں ملتے۔‘‘ عرفان نے طاہر کو قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’میں پیوند کی وجہ سے الجھن میں مبتلا رہوں گا اور نیند نہیں آئے گی۔ جس سلیپنگ بیگ میں بندہ سو ہی نہ سکے اسے خریدنے کا کیا فائدہ؟‘‘
’’آپ خواہ مخواہ وہم کا شکار ہو گئے ہیں ۔یہ کسی ایکسپیڈیشن کا بیگ ہے اور اس میں ’’ڈیکران‘‘ سے بنے ہوئے ’’ہولوفل‘‘ فائبر کا استعمال کیا گیا ہے۔ اتنی اعلیٰ نسل کے بیگ عام طور پر کوہ پیما استعمال کرتے ہیں ۔‘‘
’’یہ سلیپنگ بیگ آپ کے بیگ سے بہتر ہے؟‘‘ طاہر نے تیکھے لہجے میں سوال کیا۔
’’بہت بہتر ہے۔‘‘
’’تبادلہ کر لیں ؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’میں اسے خرید لیتا ہوں ۔آپ اپنے سلیپنگ بیگ سے تبدیل کر لیں ۔ آپ کو اعلیٰ نسل کا سلیپنگ بیگ مل جائے گا اور میں پیوند لگے بیگ میں سونے کی خواری سے بچ جاؤں گا۔‘‘
’’مجھے بہ خوشی منظور ہے،لیکن آپ سراسر گھاٹے کا سودا کر رہے ہیں ۔‘‘ عرفان نے پیش کش قبول کرتے ہوئے انتباہ کیا۔
’’یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے۔‘‘
سلیپنگ بیگز کا باضابطہ تبادلہ ہوٹل پہنچنے کے بعد عمل میں آیا۔ اس موقع پر عرفان نے مزید فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔اُس نے بیگ کے ساتھ پانچ سو روپے بھی طاہر کی خدمت میں پیش کیے۔ اُس کا کہنا تھا کہ طاہر کے سلیپنگ بیگ کی مارکیٹ ویلیو اس سے کہیں زیادہ ہے، لیکن اس کا بجٹ پانچ سو روپے سے زیادہ کی اجازت نہیں دیتا۔ طاہر یہ رقم لینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہا تھا۔اس کا کہنا تھا کہ سودا برابری کی بنیاد پر ہوا تھا۔عرفان نے پانچ سو کا نوٹ زبردستی اس کی جیب میں ٹھونس دیا۔
مجھے حیرت ہوئی کہ اس روشن خیال زمانے میں اتنے وضع دار اور پراگندہ طبع لوگ پائے جاتے ہیں … احمق کہیں کے!ـ
جنرل سٹور،کریانہ سٹور اور بیکری سے بقیہ اشیاء کی خریداری مکمل کرنے کے بعد ہم نے کمرے کا رخ کیا۔ اب بھی طاہر اور بھٹہ صاحب کے ٹریکنگ شوز ’’شارٹ ‘‘ تھے، لیکن ہمارے پاس وقت بہت کم تھا اور ٹریک کے تمام انتظامات باقی تھے۔
کمرے کے سامنے پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک دھان پان سا نوجوان ٹہل رہا تھا جس کے فاقہ زدہ چہرے پر خود ساختہ قسم کی مظلومیت طاری تھی۔ہم نے کمرے کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ اس نے اندر آنے کی اجازت طلب کر لی۔
’’السلام علیکم سر!اجازت ہے سر۔‘‘
’’جی فرمائیے۔‘‘ میں نے قدرے ناگواری کا اظہار کیا۔
’’ہمارا نام عالم خان ہے سر۔‘‘
’’ہو گا یا ر۔ہم کیا کریں ۔‘‘ طاہر نے بھی بے زار لہجہ استعمال کیا۔ اس وقت شاید ہم سب پر ایک نامعلوم بیزاری اور اکتاہٹ طاری تھی اور ہم کسی ایرے غیرے سے گپ شپ لگا کر وقت ضائع کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
’’ہم نے سنا تھا کہ آپ لوگ دیانتر پاس جاتا ہے، مگر ہمارا خیال ہے ہم کسی غلط کمرے میں آ گیا ہے۔‘‘
’’ہمیں خود صرف چند منٹ پہلے علم ہوا ہے کہ ہم دیانتر پاس جا رہے ہیں ۔تمھیں کس نے بتا دیا؟‘‘
’’محمد علی بتاتا ہے کہ دیانتر پاس ٹریک والا گروپ ادھر ہوٹل میں ٹھہرا ہے۔ مگر سر … دیانتر پاس آپ لوگ جا رہا ہے؟ہمارا مطلب ہے آپ سب لوگ؟‘‘ س نے ایک نظر ہم پر ڈالی اور شش و پنج میں مبتلا ہو گیا۔
’’کیا مطلب؟تمھیں کوئی اعتراض ہے؟ ‘‘
عرفان کا لہجہ انتہائی سخت تھا۔اُس نے محمد علی کی مدد حاصل کرنے سے معذرت کر لی تھی لیکن محمد علی نے عالم خان کو ہمارے پاس بھیج دیا۔ عرفان کا خیال تھا کہ کمیشن مافیا کے چکر میں پھنسنے کے بجائے براہِ راست معاملات طے کرنا زیادہ سودمند ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ عالم خان کو کسی قسم کی لفٹ دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔
’’ہم اعتراض کیوں کرے گا؟مگر دیانتر پاس آسان ٹریک نہیں ہے ناں ۔ اُس طرف بہت فٹ بندہ جاتا ہے۔مگر … مگر … آپ لوگ؟‘‘ اُس نے ایک مرتبہ پھر ہم چاروں پر تفصیلی نظر ڈالی اور خاموش ہو گیا۔
’’بات پوری کرو یا کمرے سے باہر چلے جاؤ۔‘‘ عرفان نے جھلا کر کہا۔’’تمھیں ہماری فِٹ نس میں کیا خرابی نظر آتی ہے؟‘‘
’’آپ کی فٹ نس میں کوئی خرابی نہیں ،اور یہ صاحب بھی بالکل فٹ ہے۔‘‘ اُس نے بھٹہ صاحب کی طرف اشارہ کیا۔’’مگر … ۔‘‘
’’پھر مگر … تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’سر یہ صاحب پچاس سے زیادہ کا ہو گا۔‘‘ عالم خان نے میری طرف اشارہ کیا۔ ’’اس کا وزن بھی کم سے کم دو من ضرور ہو گا،اور یہ دوسرا صاحب … ۔‘‘
’’ان کے وزن کی سنچری مکمل ہونے میں صرف دو چوکوں کی کمی ہے۔‘‘ میں نے عالم خان کی بات کاٹتے ہوئے پُرمسرت لہجے میں اعلان کیا۔
’’اس کا کیا مطلب ہو اسر؟‘‘
’’سو کلو سے آٹھ کلوگرام نکال دیں تو باقی کتنے بچتے ہیں ؟‘‘ طاہر نے سوال کیا۔
’’آپ کا وزن نوے کلو سے زیادہ ہے؟‘‘
’’الحمدُ للہ! … ۔‘‘ طاہر نے قبہ شکم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فخریہ لہجے میں اعتراف کیا۔
’’اب ہم کیا بولے سر؟مگر ایمانداری سے بولتا ہے کہ اس قسم کے بندوں نے آج تک دیانتر پاس کراس نہیں کیا۔آپ پکھورا کرو۔ ہم ابھی پکھورا سے آیا ہے۔ آپ کو گائیڈ کرے گا اور کوئی پرابلم نہیں ہونے دے گا۔‘‘
’’ہمیں آپ کی غیر موجودگی میں بھی کوئی پرابلم نہیں ہو گا،آپ کو کس نے کہا کہ ہمیں گائیڈ کی ضرورت ہے؟‘‘
’’گائیڈ کا ضرورت سب کو ہوتا ہے سر۔آپ اگر دیانتر یا پکھورا جاتا ہے توہم آپ کو گائیڈ کرتا ہے۔ اس سائیڈ کے لئے آپ کو عالم خان سے اچھا گائیڈ نہیں مل سکتا۔‘‘
’’مسٹر عالم خان تمھیں کو ئی پاگل شخص ہی اچھا گائیڈ تسلیم کر سکتا ہے۔‘‘
’’کیوں سر؟‘‘ عالم خان پریشان ہو گیا۔
’’تم جنھیں گائیڈ کرنا چاہتے ہو انھیں ٹریک کے لئے نا اہل قرار دے رہے ہو۔ ہم نے محمد علی کو بتا یا تھا کہ ہمیں گائیڈ کی ضرورت نہیں ،اور تم جیسے گائیڈ کی تو ہرگز نہیں ۔‘‘
’’گائیڈ کے بغیر آپ دئینتر پاس کیسے کراس کرے گا سر؟‘‘
’’کر لے گا انشاء اللہ۔تم اب چھٹی کرو۔‘‘ عرفان نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔
’’سر آپ ناراض ہو گیا ہے۔ہم کو ٹالنا چاہتا ہے۔ ہم سے غلطی ہوا تو معافی چاہتا ہے سر۔ گائیڈ تو آپ لے گا ناں ؟گائیڈ کے بغیر دیانتر پاس کراس نہیں ہو گا۔ ادھر کوئی راستہ واستہ نہیں ہے۔ہم مقامی باشندہ ہے،آپ کے بہت کام آئے گا۔‘‘
’’میں پکھورا کر چکا ہوں ۔ لوئر شانی تک راستہ دیکھا بھالا ہے۔ وہاں سے کسی بکر وال کو ساتھ لے لیں گے۔ہمارے بجٹ میں گائیڈ کی گنجائش نہیں ۔خدا حافظ۔ ‘‘
عالم خان کا پچکا ہوا چہرہ مزید پچک گیا اور وہ مایوسی کے عالم میں سر جھٹک کر باہر چلا گیا۔
ہم نے خریدے ہوئے سامان کے شاپر کمرے میں پھینکے اور مدینہ گیسٹ ہاؤس کی جانب روانہ ہو گئے۔مدینہ گیسٹ ہاؤس گلگت کی مشہور و معروف این۔ ایل۔ آئی مارکیٹ کے پہلو میں واقع ہے اور اپنے کھلے ڈلے ماحول کی وجہ سے غیر ملکی کوہ نوردوں میں بہت مقبول ہے۔ ہم اس گیسٹ ہاؤس سے تعلق رکھنے والے گائیڈ الطاف حسین سے ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ میں نے چند روز پہلے ایک ویب سائٹ پر الطاف حسین کا پروفائل دیکھ کر بذریعہ ای۔ میل رابطہ کیا تھا اور ٹریک کے بارے میں راہنمائی چاہی تھی۔ اس نے جواب دیا تھا کہ گلگت آ کر مدینہ گیسٹ ہاؤس سے رابطہ کر لیا جائے تو وہ ٹریک کا مناسب بندو بست کر دیگا۔ الطاف حسین کاؤنٹر پر موجود تھا۔اس نے نہایت گرمجوشی سے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ہم نے اسے اپنے منتخب ٹریک کے بارے میں بتایا اور انتظامات کے حوالے سے مدد چاہی۔ اس نے کاؤنٹر کی دراز سے کیلکولیٹر برآمد کیا اور حساب کتاب لگا کر اخراجات کا تخمینہ ہماری خدمت میں پیش کر دیا۔اس گوشوارے نے ہمارے ہوش اڑا دیئے۔
رقم ہمارے اندازے سے تقریباً تین گنا زیادہ تھی۔
ہم نے الطاف حسین سے اجازت چاہی اور مدینہ گیسٹ ہاؤس سے باہر آ گئے۔
پلان نمبر ایک میں ناکامی کے بعد ہم پلان نمبر دو کے مطابق ایک عدد جیپ کی تلاش میں مصروف ہو گئے۔ عرفان کا خیال تھا کہ جیپ ڈرائیور پورٹرز کا بندوبست کرنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔سینما بازار کے کئی ہوٹلوں کے سامنے مناسب داموں پر جیپ مہیا کرنے کی خوشخبری ’’لٹکی‘‘ ہوئی تھی۔ عرفان کے خیال میں گلگت سے نل تر جھیل تک دو سے اڑھائی ہزار نہایت مناسب کرایہ تھا۔ ہوٹلوں کے کاؤنٹر پر تشریف فرما حضرات نے بیک زبان ساڑھے چار ہزار طلب کیے اور ڈرائیورز سے براہِ راست رابطہ کروانے سے صاف انکار کر دیا تو ہماری پہلے سے کھلی ہوئی آنکھیں مزید کھل گئیں ۔ ہم نے الطاف حسین پر بہت زیادہ انحصار کر لیا تھا اور اب پچھتا رہے تھے کہ عالم خان سے مزید گفت و شنید کیوں نہیں کی؟ ہمارے پاس وقت کم تھا اور رابطے نہ ہونے کے برابر تھے۔ پروگرام کے مطابق ہمیں کل صبح گلگت سے روانہ ہو جانا چاہیے تھا۔ پروگرام درہم بر ہم ہونے کی وجہ سے وقت کی شدید قلت محسوس ہو رہی تھی اور انتظامات مکمل ہونے کے امکانات ختم ہوتے جا رہے تھے۔آج انتظامات مکمل نہ ہوتے توہم گلگت میں ایک اضافی دن گزارنے پر مجبور ہو جاتے۔عرفان نے سکردو میں حاصل ہونے والے تجربے پر عمل کرتے ہوئے سکائی ویز کے کاؤنٹر مین سے رابطہ کیا۔ اُس نے پورٹرز مہیا کرنے کے لئے چوبیس گھنٹے کی مہلت طلب کی،جو ہمارے پاس نہیں تھی۔اس ناکامی نے باقاعدہ بوکھلاہٹ طاری کر دی اور ہم نے محمد علی کی دکان کی طرف دوڑ لگائی تاکہ اُس سے عالم خان کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں ۔
دکان بند ہو چکی تھی۔
سینما بازار کے کئی ہوٹلوں اور ٹور آپریٹر ایجنسیوں کے دفاتر کے چکر لگائے گئے، کسی جگہ بھی معاملات طے نہ ہو سکے۔ ہم نے مجبوراً ایک دن قربان کرنے کا فیصلہ کیا اور ڈھیلے ڈھالے قدموں سے ایک مرتبہ پھر کمروں کی جانب لوٹ آئے۔
عالم خان ایک مرتبہ پھر کمروں کے سامنے ٹہل رہا تھا۔
ہم ایک پُر مسرت نعرہ بلند کرنا چاہتے تھے لیکن عرفان نے آنکھ کے اشارے سے منع کیا اور عالم خان کے ساتھ گفتگو کا فریضہ خود سنبھال لیا۔
مذاکرات کا آغاز عالم خان نے کیا۔
’’السلام علیکم سر۔پلیز ناراض نہ ہوں ۔آپ کو گائیڈ کا ضرورت نہیں تو آپ ہم کو کک (Cook) کے طور پر ساتھ لے چلو۔ہم گائیڈ بننے سے پہلے کک تھا۔ آپ کو ٹریک پر مزے مزے کے کھانے کھلائے گا۔ آپ شہر کا کھانا بھول جائے گا۔‘‘
عرفان نے عالم خان کے سلام کا جواب نہ صرف گرم جوشی بلکہ باقاعدہ مصافحے سے دیا لیکن اسے ساتھ لے چلنے سے معذرت کر لی۔
’’مجھے افسوس ہے عالم خان، ہمیں کک کی ضرورت نہیں ۔ ‘‘
’’کک کا ضرورت نہیں ہے۔آپ ٹریک کے دوران کھانا نہیں کھائے گا؟‘‘ عالم خان کا دھان پان جسم حیرت کی زیادتی کی وجہ سے باقاعدہ لرزنے لگا۔
’’کھائے گا، مگر خود پکائے گا۔ہمیں صرف پورٹرز کی ضرورت ہے۔‘‘
’’پورٹر کے طور پر ہم نہیں جا سکتا سر۔‘‘ عالم خان مایوس ہو گیا۔’’مگر آپ بولے تو ہم آپ کے لئے پورٹرز کا بندوبست کر دے۔‘‘
’’بائی دا وے آج کل پورٹرکا ریٹ کیا چل رہا ہے؟‘‘
’’پورٹر پانچ سو روپے ڈیلی لے رہا ہے سر۔‘‘
’’میری اطلاع کے مطابق اس سال پورٹر کا معاوضہ ساڑھے تین سو روپے فی سٹیج ہے۔‘‘
’’چلو آپ ساڑھے تین سو دے دینا۔‘‘ عالم خان نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا۔
’’دیانتر پاس کی سٹیج کتنی ہیں ؟‘‘
’’سات سٹیج بنتا ہے سر،آپ کو کتنا پورٹر چاہیے؟‘‘
’’پاکستان ٹورزم کی جاری کر دہ اٹرنری کے مطابق دیانتر پاس پانچ سٹیج پر مشتمل ہے۔ ہمیں تین پورٹرز درکار ہونگے۔ ذاتی رک سیک ہم خود اٹھائیں گے۔‘‘
’’آپ اٹھائیں گے۔میں دس بارہ کلو وزنی بیگ اٹھا کر دیانتر پاس کی چڑھائی نہیں چڑھ سکتا۔‘‘ میں نے چونک کر احتجاج کیا۔
’’میں بھی نہیں چڑھ سکتا۔‘‘ طاہر نے میرا ساتھ دیا۔
’’اس کا حل یہ ہے کہ آپ تین نہیں ، چار پورٹرز کی بات کریں ۔ تین کی ادائیگی ٹیم کے مشترکہ بجٹ سے کی جائے گی،چوتھے کی ادائیگی ٹیم کے وہ ارکان کریں گے جو اُس سے اپنا سامان اٹھوائیں گے۔‘‘ میں نے تجویز پیش کی۔
’’او۔کے۔ہمیں چار پورٹر درکار ہوں گے۔‘‘ عرفان نے فیصلہ دیا۔
’’سر تین چار کا بات نہیں ۔آپ جتنا بولو گے ملے گا۔ آپ ہمیں بھی ساتھ لے چلو۔ آپ کے بہت کام آئے گا۔‘‘
’’کیسے لے چلیں ؟ہم بہت غریب قسم کے ٹریکر ہیں ۔ہمارے بجٹ میں گائیڈ یا کک کی گنجائش بالکل نہیں ،اور تم مفتا مفتی ہمارے ساتھ چلنے سے رہے۔‘‘
’’سر آپ بیٹھ کر بات کرو ناں ۔ہم کوئی راستہ نکالتا ہے۔‘‘
ہمیں بھی احساس ہوا کہ یہ اہم ترین مذاکرات برآمدے میں کھڑے کھڑے کامیاب نہیں ہوں گے اور ہم کسی قیمت پر ان کی ناکامی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔اس لئے عالم خان کو نہ صرف کمرے کی تین ٹانگوں والی اکلوتی کرسی پر تشریف فرما ہونے کی پیشکش کی گئی بلکہ اس کے اعزاز میں چائے کا آرڈر بھی دے دیا گیا۔ عالم خان گذشتہ تجربے کے پیش نظر اس عزت افزائی پر خوشگوار حیرت میں مبتلا نظر آتا تھا۔
ہم تینوں نے عرفان اور عالم خان کے مذاکرات میں دخل دینا مناسب نہ سمجھا اور چائے کی چسکیاں لینے کے بعد آڑے ترچھے انداز میں بیڈز پر دراز ہو گئے۔لگ بھگ ایک گھنٹے پر محیط بحث و مباحثہ کے بعد عرفان نے مذاکرات کی کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
جیپ اور پورٹرز کا بندوبست عالم خان کرے گا۔ اُسے دو ہزار روپے فی پورٹر معاوضہ ادا کیا جائے گا، سٹیج یا ڈیلی کا چکر نہیں ہو گا۔پورٹرز اپنی خوراک کا بندوبست خود کریں گے۔
عالم خان پورٹرز کے برابر معاوضہ وصول کرے گا، پورٹر کی نسبت آدھا وزن اٹھائے گا، گائیڈ کے فرائض مفت میں سرانجام دے گا اور کیمپنگ سائٹ پر کسی پورٹر سے روٹیاں پکوانا اس کی ذمہ داری ہو گی۔اس خدمت گاری کا معاوضہ پورٹرز کو خوراک کے سربند ڈبوں کی صورت میں ادا کیا جا سکتا ہے لیکن یہ معاہدے کی شرط نہیں ہے۔
ٹریک کے اختتام پر عالم خان کو ’’حسب نتائج‘‘ پانچ سو یا ایک ہزار روپے بطور انعام ادا کیے جائیں گے۔
مذاکرات کی کامیابی نے ہمیں ہر قسم کے تفکرات سے آزاد کر دیا۔ ٹریک کے انتظامات کا بھاری بھرکم بوجھ ہمارے ’’توانا‘‘ کاندھوں سے اتر کر عالم خان کے نا تواں شانوں پر منتقل ہو گیا۔ اس خوشی میں عرفان نے مکھن ٹافیاں تقسیم کیں اور عالم خان اپنے حصے کی ٹافی لیتے ہی جیپ تلاش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ ہم نے بتا دیا تھا کہ صبح سویرے سفر کا آغاز کرنا چاہتے ہیں اور اسے وقت کی کمی کا پورا احساس تھا۔
ٹریک کے انتظامات مکمل ہونے کی امید بندھی تو احساس ہوا کہ آنتیں قل ھو اللہ پڑھ رہی ہیں ۔نیند اور تھکاوٹ کا تقاضا تھا کہ سکائی ویز کے ڈائیننگ ہال میں جو کچھ میسر ہو تناول فرما لیا جائے لیکن سکائی ویز کے ڈائننگ ہال میں گردش کرتے ہوئے سگریٹ کے دھوئیں کے مرغولے اور اس کی ٹیبل پر موجود ڈشوں کی ظاہری حالت نے ہمیں مجبور کر دیا کہ کھانے کے لیے کوئی اور ٹھکانہ تلاش کیا جائے۔
ہم ایک مرتبہ پھر سینما بازار کی سڑک ناپ رہے تھے۔
گلگت کا رمضان ہوٹل اپنے کھانوں کی لذت کیلئے مقامی اور ڈاؤن سے آنے والے لوگوں میں یکساں مقبول ہے۔ آٹھ سال پہلے بھی رمضان ہوٹل اتنا ہی مشہور و معروف تھا اور رانا یونس، طاہر اور سعید کو یہاں کے چکن کڑاہی نے لکشمی چوک لاہور کا بھولا بسرا ذائقہ یاد دلا دیا تھا۔ رمضان ہوٹل اب تک اپنی ’’اصلی ‘‘ حالت میں قائم و دائم تھا۔صفائی آٹھ سال پہلے کی گئی تھی۔ مرغ اور مرغیاں کاؤنٹر کے اوپر نصب کنڈیوں سے جھولا جھولتے ہوئے سوال کر رہے تھے کہ ہمیں آٹھ سال پہلے ذبح کیا گیا تھا تو اب تک شرفِ ’’کڑھائیت‘‘ کیوں نہیں بخشا گیا؟ فٹ پاتھ کے کنارے تلے جانے والے چپل کبابوں کی رو سیاہی فریاد کناں تھی کہ آٹھ سا ل قبل بنائے جانے کے باوجود آج تک ’’فرائیت‘‘ کے مرحلے سے کیوں نہیں گزارا گیا؟مرغ، مرغیوں اور چپل کبابوں کی مظلومیت نے ہمیں رمضان ہوٹل سے بد دل کر دیا اور ہم اسے نظر انداز کر کے آگے چل دیئے۔ گلگت کے ریستورانوں کے بارے میں ہماری معلومات ناکافی تھیں ۔میں نے ایک بیکری والے سے دریافت کیا کہ گلگت میں اچھا کھانا کہاں سے مل سکتا ہے؟
’’اچھا کھانا؟آپ دریا کے پل کی طرف چلے جاؤ۔ادھر بہت بڑا بڑا ہوٹل ہے۔ دال کا پلیٹ ڈیڑھ سو روپے کا ملتا ہے۔‘‘
ہم اونچی دکان کے پھیکے پکوان کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتے تھے اس لئے سوال کا انداز تبدیل کر دیا۔
’’آپ گلگت کے کون سے ہوٹل میں کھانا پسند کرتے ہیں ؟‘‘
’’ہم دوپہر کا کھانا نیو پٹھان ہوٹل میں کھاتا ہے۔‘‘
’’یہ کس جگہ ہے؟‘‘
اُس نے اس سوال کا جواب عملی طور پر دیا اور کاؤنٹر چھوڑ کر ہماری راہنمائی کا فریضہ سنبھال لیا۔ نیو پٹھان ہوٹل نسبتاً صاف ستھرا ہوٹل تھا اور حسن اتفاق یہ کہ سکائی ویز کے بالکل قریب تھا۔اُس شریف آدمی نے ہمیں با ضابطہ طور پر نیو پٹھان ہوٹل کے بل کلرک کے حوالے کیا اور بہترین کھانا مہیا کرنے کی سفارش کی۔ ہم نے اسے بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی لیکن اس نے معذرت کر لی اور چلتے چلتے اپنے مشورے سے نوازا۔
’’ہم کو ان کا افغانی پلاؤ بہت اچھا لگتا ہے۔آپ کو جو پسند ہو منگوا لو۔‘‘
نیو پٹھان ہوٹل کا افغانی پلاؤ ’’ڈش آف دی ٹریک ‘‘ ثابت ہوا۔ اب بھی دیانتر پاس ٹریک کی روداد نیو پٹھان ہوٹل کے افغانی پلاؤ کی سندر خانی کشمش اور منفرد ذائقہ رکھنے والی نامعلوم اجزاء پر مشتمل چٹنی کے تذکرے کے بغیر نا مکمل سمجھی جاتی ہے۔طاہر نے پلاؤ سے زیادہ کشمش اور میں نے چاولوں سے زیادہ چٹنی کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا اور چٹخارے لیتے ہوئے سکائی ویز کے کمروں میں لوٹ آئے۔
یہ تیسرا موقع تھا کہ ہم دروازے پر پہنچے تو عالم خان برآمدے میں ٹہل رہا تھا۔ عالم خان نے یہ اطلاع دے کر اپنی افادیت ثابت کر دی کہ وہ تین ہزار روپے کے عوض نل تر جھیل کے لئے جیپ بک کروا آیا ہے جو صبح سویرے ہوٹل کے سامنے پہنچ جائے گی۔اُس نے ہدایت کی کہ سامان ابھی پیک کر لیا جائے تاکہ صبح سات بجے کے لگ بھگ روانہ ہو سکیں ۔ اُسے شاید اس مرتبہ بھی گذشتہ سے پیوستہ پذیرائی کی توقع تھی لیکن دو طرفہ معاملات طے پا چکے تھے،نیند کے جھونکے چکر پہ چکر دے رہے تھے اور ہم اس وقت عالم خان کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اس لئے زبردستی ہاتھ ملاتے ہوئے اسے کمرے کے باہر ہی سے چلتا کیا اور بیڈز پر لمبے لیٹ ہو گئے۔
صبح جس وقت سکائی ویز کے گیٹ کے سامنے جیپ کے پریشر ہارن کی آواز گونجی، ہم آنکھیں ملتے ہوئے سامان پیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عالم خان کمرے میں داخل ہوا اور ہمیں سامان کے ساتھ گتھم گتھا ہوتے دیکھ کر مسکرانے لگا۔
’’ہم جانتا تھا کہ آپ لوگ رات کو سامان پیک نہیں کرے گا۔صبح لیٹ روانہ ہو گا اور ہمارے اوپر غصہ کرے گا کہ ہماری وجہ سے دیر ہوتا ہے۔‘‘
’’تم کیسے جانتے تھے؟ ولی اللہ ہو؟‘‘ بھٹہ صاحب نے جھلا کر پوچھا۔
’’کوئی بھی پارٹی رات کو سامان پیک نہیں کرتا۔ صبح کو ہم کرتا ہے۔‘‘
’’ضرور کرو،اللہ تمھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔‘‘ میں نے برتنوں کی بوری نیلے ڈرم میں ٹھونسنے کی کوشش سے دست بردار ہو کر بیڈ پر تشریف فرما ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہم محمود علی کو بلاتا ہے،پھر دونوں مل کر کرتا ہے۔‘‘
’’یہ کون صاحب ہیں ۔‘‘
’’ہمارا جیپ کا ڈرائیور ہے ناں ۔‘‘
ہمارا سامان اتنا بے ترتیب اور بے ڈھنگا تھا کہ عالم خان اور محمود علی کی تجربہ کاری اور برق رفتاری کے باوجود ایک گھنٹے سے پہلے پیک نہ ہو سکا۔اسے جیپ میں لوڈ کرنے میں مزید آدھا گھنٹہ صرف ہو گیا۔ ہم نے سکائی ویز کو خدا حافظ کہا اور جیپ گلگت بازار میں داخل ہوئی تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ بازار سے گزرتے ہوئے ہم نے بار بار جیپ روک کر چھوٹی موٹی اشیاء خریدیں ۔ اس چھوٹی موٹی خریداری میں ڈیڑھ دو گھنٹے صرف ہوئے۔ہم خریدار ی سے فارغ ہوئے تو عالم خان نے ایک مارکیٹ کے سامنے جیپ رکوائی اور غائب ہو گیا۔ واپس آیا تو اس کے ہاتھوں میں ٹریکنگ شوز نما جوگرز تھے۔ طاہر اور شوکت بھٹہ صاحب یہ شوز دیکھ کر چونک گئے۔ عالم خان جیپ میں سوار ہوا اور جیپ نے دوبارہ رفتار پکڑ لی تو طاہر نے عالم خان سے دریافت کیا:
’’ٹریکنگ شوز بہت ضروری آئٹم ہے؟‘‘
’’ٹریکنگ شوز کے بغیر دیانتر پاس تک کیسے پہنچے گا؟‘‘ عالم خان سخت حیران ہوا۔
’’ہمارے پاس ٹریکنگ شوز نہیں ہیں ۔ ‘‘ طاہر نے سادگی سے اطلاع دی۔
’’آپ لوگ دیانتر پاس کراس کرے گا اور آپ کے پاس ٹریکنگ شوز نہیں ہے۔ ابھی آپ لوگ مذاق کرتا ہے ناں سر؟‘‘ محمود علی نے دانت نکالے۔
’’اس میں مذاق کی کیا بات ہے۔ہم میں سے دو کے پاس ٹریکنگ شوز ہیں ، دو کے پاس نہیں ہیں ۔صرف جوگرز ہیں ۔‘‘
’’ٹریکنگ شوز کے بغیر دیانتر پاس؟ ابھی ہم کیا بولے صاب؟ آپ بڑا لوگ ہے، آپ جانے اور آپ کا کام۔ہم کو کیا؟ہم ڈرائیور ہے۔‘‘
’’عالم خان نے جوگرز ہی خریدے ہیں ۔انھیں ٹریکنک شوز نہیں کہا جا سکتا۔‘‘
’’آپ عالم کا مقابلہ کرے گا صاب ؟یہ ادھر کے راستوں کا کیڑا ہے۔جس راستے پر چلنے کے لئے اسے نئے جوگر کا ضرورت ہے اُس پر ڈاؤن سے آیا ہوا لوگ ٹریکنگ شوز کے بغیر کیسے چل سکتا ہے؟ مگر ہم کو کیا؟ ہم ڈرائیور ہے۔‘‘
طاہر اور بھٹہ صاحب نے کانا پھوسی کی اور محمود علی کو واپس چلنے کا حکم دیا۔
گلگت کے بازار ایک مرتبہ پھر ’’جوتا تلاشی‘‘ مہم کا مرکز بن گئے،لیکن گلگت بازار میں پائے جانے والے بے شمار ٹریکنگ شوز میں سے کوئی ایک بھی طاہر کے دل میں ،میرا مطلب ہے پاؤں میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ بھٹہ صاحب کو البتہ صرف چار سو روپے کے عوض بہت اچھی حالت میں سکینڈ ہینڈ ٹریکنگ شوز دستیاب ہو گئے۔ طاہر نے اعلان کیا کہ اب جو ہو سو ہو، وہ اپنے پرانے جوگرز پہن کر ہی دیانتر پاس عبور کرے گا۔ اس اعلان پر محمود علی نے جن نظروں سے طاہر کی طرف دیکھا ان کی وضاحت نہیں کی جا سکتی، پنجابی ترجمہ کیا جا سکتا ہے:
’’خصماں نوں کھاؤ۔مینوں کی؟میں تے ڈرائیور آں ۔‘‘

ڈاکٹر محمد اقبال ہما

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو سفرنامہ از ڈاکٹر محمد اقبال ہما