- Advertisement -

اگر

ہما فلک کا ایک اردو افسانہ

“سیمی ایک کپ چائے تو بنا دو۔ پلیز!”

’’اس وقت؟ یہ کون سا وقت ہے چائے پینے کا ؟ رات کو نیند بھی نہیں آئے گی۔‘‘ سیمی جو کہ ناول میں گم تھی اسے یہ بےوقت کی راگنی بہت کھلی۔

“میرا ابھی موڈ ہے چائے پینے کا تو کیا اب میں صبح کا انتظار کروں ؟”

’’افوہ۔۔۔ سارے دن میں ایک یہی وقت ہوتا ہے آرام کا اب اس میں بھی ۔۔۔۔ ‘‘سیمی جھنجھلا کر بولی۔

’’تم کرتی کیا ہو سارا دن، صفائی اور کپڑے تو کام والی کے ذمے ہیں۔ فون پر گپ بازی کر لیتی ہو یا ناول پڑھتی رہتی ہو۔‘‘

’’تو آپ کے خیال میں صرف صفائی اور کپڑے ہی کام ہیں اور کوئی گھر کی ذمہ داری نہیں ہوتی؟۔‘‘سیمی جانتی تھی کہ وہ ہر بار یہ جملہ اسے چڑانے کے لئے بولتا ہے۔ پھر بھی وہ چڑ جاتی تھی۔ نہ تو کبھی ایسا ہوا تھا کہ اس نے یہ جملہ نہ بولا ہو، نہ ہی کبھی سیمی نے نظر انداز کیا تھا۔

’’تو ایسا کون سا تیر مارتی ہو، ساری عورتیں ہی گھروں کی ذمہ داریاں پوری کرتی ہیں۔ وہ بھی تو ہیں جو جاب بھی کرتی ہیں اور گھر بھی سنبھالتی ہیں۔ سارا دن دفتر میں سر کھپا کے ایک کپ چائے ہی تو مانگا ہے تم سے۔‘‘

’’ تو آپ کون سا کوئی انوکھا کام کرتے ہیں۔ سارا دن فلی ائیر کنڈیشنڈ آفس میں آرام سے گزرتا ہے۔ وہ بھی تو ہیں جو شدید تپتی دوپہر میں مزدوری کرتے ہیں۔‘‘ سیمی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

’’دیکھو ایک کپ چائے کے لئے اتنی چخ پخ کی ضرورت نہیں بنا کر دو گی یا نہیں؟‘‘ وہ جانتی تھی کہ اب نہ کی گنجائش نہیں۔ بڑبڑاتی ہوئی باورچی خانے کی طرف چلی آئی۔ ایک تو گرم بستر سے نکلنا، اوپر سے ناول ایسے موڑ پر کہ، تجسس عروج پر تھا۔ موڈ تو خراب ہونا ہی تھا۔ چائے بنا کر لائی تو اسد بڑا مگن ہو کر ٹی وی پر خبریں دیکھ رہا تھا۔ سیمی کو اس کے ہر وقت نیوز چینل لگائے رکھنے پر سخت اعتراض ہوتا تھا۔ کبھی تو انسان کچھ اور بھی دیکھتا ہے۔

’’وہ اسد ۔۔۔۔ میں کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔‘‘

“ٹھہرو ذرا ایک منٹ بہت ضروری خبر آرہی ہے۔‘‘

’’ آپ سے تو جب بات کرو کوئی نہ کوئی خبر آ رہی ہوتی ہے۔ انسان بات کب کرے؟‘‘

’’مجھے سننے دوگی ذرا؟‘‘

’’تو سنیں میں نے کون سا آپ کے کانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔‘‘

’’یار ۔۔۔ تمہاری بک بک میں پوری خبر نکل گئی اب کیا خاک سنوں؟‘‘جھنجھلا کر اسد سگریٹ سلگانے لگا۔ سیمی کو بک بک والی بات پر ویسے ہی غصہ تھا، سگریٹ سلگاتے دیکھ کر اور بھی سوا ہو گیا۔

’’آپ جانتے ہیں نا مجھے اس کی بو نہیں پسند ۔۔۔۔‘‘

’’ تو کیا کروں ؟ اب سگریٹ بھی نہ پیوں ؟‘‘

’’نہیں ضرور پیئیں میرے روکنے سے کون سا آپ باز آنے والے ہیں۔ یہ تو آکسیجن ہے آپ کے لئے، لیکن یہ مہربانی کریں کہ بالکونی میں چلے جائیں۔‘‘

’’دماغ ٹھیک ہے تمہارا؟ اتنی سخت سردی میں میں باہر چلا جاؤں۔‘‘ اسد نے ایک لمبا کش لے کردھواں اگلتے ہوئے کہا۔ اب یا تو سیمی خود اٹھ کر وہاں سے جاتی، یا دھواں اور بو برداشت کرتی۔ گرم بستر میں لیٹ کر ناول پڑھنے کا جو مزہ تھا اسے تھوڑی دیر کے دھوئیں پر قربان نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس نے اٹھ کر کھڑکی کھولی اور لیٹ کر پھر سے ناول میں مگن ہو گئی۔

’’ لائٹ آف کرو مجھے سونا ہے ۔‘‘ اسد چائے اور سگریٹ سے فارغ ہو چکا تھا۔ اپنی سائیڈ کا لیمپ بند کرتے ہوئے بولا۔

’’ بس یہ والا چیپٹر پڑھ لوں۔ بہت دلچسپ ہے اس عورت کو زنجیروں سے کیوں باندھ کر رکھا گیا تھا، بس یہ پتہ چل جائے تو بند کرتی ہوں۔‘‘سیمی جانتی بھی تھی کہ اسے اس سب میں دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ اسے اس کے فضول مشغلے گردانتا ہے مگر پھر بھی اسے لگا کہانی کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے وہ اس سے لائیٹ بند کرنے کی ضد نہیں کرے گا۔

’’تم جانتی ہو مجھے صبح آفس جانا ہے اور لائیٹ مجھے ڈسٹرب کرتی ہے۔”

“ہاں تو آپ اپنا لیمپ آف کرکے دوسری طرف منہ کرکے سو جائیں پلیز ، بس تھوڑا سا ہی پارٹ رہ گیا ہے۔‘‘

’’لائٹ بند کرو یا دوسرے کمرے میں چلی جاؤ۔‘‘ اسد نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔

’’اف۔۔۔ آپ بھی نا۔‘‘ اب دوسرے کمرے میں جانے کے تصور سے ہی اسے کپکی آ گئی اس لئے ناچار اس نے لیمپ بجھایا اور خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگی۔

یہ یا اسی طرح کی بحثیں ان کا روز کا معمول تھا اور اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ان کی شادی کو دوسال گزر چکے تھے اور اس طرح کی چھوٹی موٹی نوک جھونک ہر وقت چلتی رہتی تھی۔ سیمی کو اب لگنے لگا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کر سکتی۔ ادھر اسد کو بھی یہی گلہ تھا۔ صبح دفتر جاتے ہوئے اسے بتانا پڑتا کہ شام میں وہ گھر آئے گا یا کہیں اور کا پروگرام ہے۔ اگر کوئی اور پروگرام ہوتا تو اسے بتانا پڑتا، کہاں جانا ہے، کب واپس آئے گا یا جیسے ہی دفتر سےچھٹی کا وقت ہوتا وہ فون کر کے پھر پوچھ لیتی کہ وہ گھر ہی آرہا ہے یا کہیں اور جانا ہے ۔اگر اس نے کہیں اور جانا ہوتا ،دوستوں وغیرہ کی طرف وہ تب بھی دو تین دفعہ کال کر کے ضرور پوچھتی کب آ رہے ہیں۔ اب تو اس کے کولیگز بھی اس بات سے واقف ہو چکے تھے اور اس کا مذاق بناتے کہ آ گئی ‘ہیڈ کوارٹر’ سے کال۔ وہ کبھی ہنس کر ٹال دیتا اور کبھی جھنجھلا جاتا۔ اسی طرح چھٹی کے دن بھی اسے یا تو سیمی کو لے کر اس کے میکے جانا پڑتا یا خریداری وغیرہ بھی وہ اس کی چھٹی آنے تک اٹھا رکھتی تھی۔ وہ جو بھی پروگرام دیکھتا تھا۔ سیمی کو بہت بور لگتے تھے۔ اسی طرح سیمی کی فلمیں، ڈرامے، کتابیں اسد کو بے کار مشغلے لگتے۔ سیمی لیٹ کر اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ پھر اس کا دھیان ناول والی زنجیروں میں بندھی ہوئی عورت کی طرف چلا گیا۔ کس جرم کی پاداش میں اسے حویلی کے اندر زنجیروں سے باندھ کر رکھا گیا تھا۔ آدھا سے زیادہ ناول وہ پڑھ چکی تھی۔ حویلی کے لوگ بظاہر تو بہت نرم دل اور انسان دوست دکھائے گئے تھے۔ پھر اس پر یہ تضاد اس کے تجسس کو ہوا دے رہا تھا۔ کچھ دیر تو وہ لیٹی سوچتی رہی۔ پھر اس نے مڑ کر اسد کو دیکھا، وہ گہری نیند میں خراٹے لے رہا تھا۔ اس کے خراٹے بھی سیمی کی نیند میں ہمیشہ مخل ہوتے تھے لیکن اس کے پاس اس کا حل کوئی نہیں تھا۔ اس نے اس کی طرف ایک تکیے کی آڑ سی بنائی اور لیمپ جلا لیا۔ روشنی ہوتے ہی اسد کے خراٹے رک گئے۔

’’ ہوں ۔۔۔ ہوں۔۔۔بند کرو اس کو۔‘‘ گہری نیند میں وہ بڑ بڑایا۔ سیمی نے سخت کوفت زدہ ہو کر لیمپ بجھایا۔ پھر آہستگی سے اٹھی ، بہت احتیاط سے الماری میں سے ایک کمبل نکالا ،اور ناول لے کر لیونگ روم میں آ گئی۔ دروازاہ بند کر کے صوفہ پر آرام سے لیٹ کر پڑھنے لگی۔

’’تم تو مجھے پاگل لگتی ہو جسے نیند ہی نہیں آتی۔‘‘ ابھی اسے یہاں آدھا گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ نیند میں ڈوبا ہوا اسد دروازے میں کھڑا کہہ رہا تھا۔

’’ یہ وقت ہے تمہارا پڑھنے کا؟ صبح نہیں ہوگی کیا۔‘‘

’’ اسد میں آپ کو تو کچھ نہیں کہہ رہی ہوں ، آپ جا کر سو جائیں آرام سے۔‘‘ سیمی کو اس کی اس وقت کی مداخلت سخت ناگوار گزری تھی۔

’’ کیسے سو جاؤں ؟ مجھے دروازے کے نیچے سے لائٹ تنگ کر رہی ہے۔‘‘ سیمی نے انتہائی بے بسی سے ناول بند کیا اور بیڈ روم میں آگئی۔

’’انسان اپنی مرضی سے کوئی کام نہیں کر سکتا۔ وہ لیٹتے ہوئے بڑبڑائی تھی۔

’’ چپ کر کے سو جاؤ میرا بحث کا موڈ نہیں ہے۔ مجھے صبح دفتر جانا ہے۔ تم نے تو سارا دن بستر میں لیٹ کر ناول پڑھنے ہوتے ہیں۔ اس وقت سیمی کا دل چاہا کہ کوئی ایسا بٹن ہوتا جسے دبانے سے اسد گہری نیند سو جاتا اور وہ آرام سے اپنا ناول مکمل کر لیتی یا پھر اس کا اپنا ہی کوئی بٹن ہوتا جسے دبا کر وہ ان سوچوں سے نجات حاصل کر لیتی۔

’’سیمی ایک کپ چائے تو بنا دو ۔‘‘

’’اس وقت۔۔۔؟‘‘’’ہاں ۔۔۔ ابھی موڈ ہے۔‘‘

’’اوکے جان ۔۔۔ ابھی لاتی ہوں۔‘‘سیمی نے اسد کی طرف کروٹ بدلی اور مسکرا کر اسکی طرف دیکھا۔ اسد اسے قریب پا کر اس پر جھک گیا۔ سیمی نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھ میں لیا اور اس کے بالوں میں اپنا ہاتھ پھنسایا تو اسد فورا سو گیا۔ سیمی نے اس کا سر آرام سے تکیے پر رکھا اور اپنا ناول پڑھنے لگی۔

’’دوسرا چینل لگاؤ ، آج بہت اہم اجلاس ہوا ہے۔ ہر طرف اسی کا شور ہے۔مجھے دیکھنا ہے۔‘‘

’’اسد بہت اچھی فلم آرہی ہے ، مجھے بہت عرصے سے اسے دیکھنے کا شوق تھا۔‘‘

’’میں نے کہا ہے کہ یہ خبر بہت اہم ہے۔ تمہاری فلمیں تو سارا دن چلتی ہیں۔‘‘سیمی ریموٹ ہاتھ میں پکڑے اٹھ کر اسد کے قریب آئی ۔

’’یہ لیں دیکھ لیں اپنا پروگرام ۔‘‘ نرمی سے کہہ کر اس نے اسد کے سر کو سہلایا۔ وہ گہری نیند میں ڈوب گیا تو وہ آرام سے اپنی فلم دیکھنے لگ گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اس بٹن کی یہی خاصیت ہے کہ اسد جب اٹھے گا تو اسے، وقت کا صرف ایک لمحہ گزرا ہوا محسوس ہوگا اور وہ اپنی سونے سے پہلے کی خواہش یا سوال بھول چکا ھوگا۔

’’آپ جانتے ہیں مجھے سگریٹ کا دھواں نہیں پسند۔‘‘

’’ تو پھر ادھر چلی جاؤ۔‘‘ سیمی اسد کے قریب آئی اور اسد بے خبری کی نیند میں ڈوب گیا۔ اب سیمی کو اسد کے خراٹے بھی تنگ نہیں کرتے تھے۔ وہ اتنی آہستہ سانس لیتا تھا کہ بہت قریب سے سننے پر بھی مدہم سی آواز آتی تھی۔

’’آج پارٹی میں بہت مزہ آیا ،لیکن تھکن بھی بہت ہو گئی۔‘‘ وہ لوگ باہر سے آئے تھے سیمی نے جوتے اتارتے ہوئے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔

’’ہاں اور تم غضب کی حسین لگ رہی تھیں، سب میں نمایاں۔‘‘ اسد اس کی طرف جھکا۔

’’جاؤ نا اپنی سرخ نائیٹی پہن کر آؤ۔‘‘

’’اف ۔۔۔ اسد سچ بہت تھکی ہوئی ہوں۔‘‘

’’چینج تو تم نے کرنا ہی ہے تو وہی پہن لو۔‘‘

’’ وہ پہن تو لوں لیکن اس کے بعد۔۔۔۔ پلیز اسد ۔۔۔سخت نیند آرہی ہے۔‘‘

’’اگر تم سے نا کہوں تو کسی اور سے کہوں؟‘‘

’’ کسی اور کا سوچ کر بھی دیکھیں۔۔۔لیکن آج نہیں بس۔۔۔‘‘ سیمی دُلار سے بولی۔

’’فریش ہو جاؤ گی مان جاؤ۔۔۔۔ ‘‘

’’پلیز ۔۔۔ آج نہیں۔‘‘

’’او کے ۔۔۔۔ایز یو وش ( as you wish) ۔۔۔ ‘‘ اسد نے قریب آ کر اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور اس کے بالوں میں سہلایا۔ سیمی گہری نیند میں چلی گئی۔ اسے احتیاط سے بیڈ پر لٹا کر اس نے موبائل پر کوئی نمبر ملایا۔

’’جان ۔۔۔ تم بس پندرہ منٹ انتظار کرو ۔۔۔ میں آ رہا ہوں۔۔۔۔‘‘

سیمی نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اس نے پلٹ کر اسد کو دیکھا۔ وہ گہری نیند میں بلند آواز میں خراٹے لے رہا تھا۔ اسے اب کوئی خواہش نہیں رہی تھی کہ اسد کے خراٹے بند ہوں اور وہ گہری نیند سو سکے

ہمافلک

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
گلناز کوثر کی ایک اردو نظم