آہا آہا! برکھا آئی

مشتاق یوسفی کی ایک اردو مزاحیه تحریر

آہا آہا! برکھا آئی

کوئی دو ہفتے بعد بشارت کی طاہر علی موسیٰ بھائی سے اسپنسر آئی ہاسپٹل کے سامنے مڈبھیڑ ہو گئی۔ موسیٰ بھائی بوہری تھا اور اس کی لکڑی کی دکان ان سے اتنے فاصلے پر تھی کہ پتھر پھینکتے تو ٹھیک اس کی سنہری پگڑی پر پڑتا۔ یہ حوالہ اس لیے بھی دینا پڑا کہ کئی مرتبہ بشارت کا دل اس پر پتھر پھینکنے کو چاہا۔ وہ کبھی سیدھے منہ بات نہیں کرتا تھا۔ ان کے لگے ہوئے گاہک توڑتا اور طرح طرح کی افواہیں پھیلاتا رہتا۔ دراصل وہ ان کی بزنس خراب کر کے ان کی دکان خریدنا چاہتا تھا۔ اس کی چھدری داڑھی طوطے کی چونچ کی طرح مڑی رہتی تھی۔

وہ کہنے لگا ” بشارت سیٹھ! لاسٹ منتھ ہم کو کسی نے بولا آپ گھوڑے کو شوٹ کر وا رہے ہو۔ ہم بولا، باپ رے باپ! یہ تو ایک دَم ہتھیا ہے۔ وہ گھوڑا تو عشرہ (محرم) میں جُل جنا ( ذوالجناح ) بنا تھا! ہماری آرا مشین پہ ایک مجور کام کرتا ہے، تراب علی۔ اس نے ہم کو آ کے بولا کہ میری جھگّی کے سامنے سے دُلدل کی سواری نکلی تھی۔ آپ ہی کا گھوڑا تھا۔ سیم ٹو سیم۔ سولہ آنے۔ تراب علی نے اس کو اپنے ہاتھ سے دودھ جلیبی کھلائی۔ آپ کے کوچوان نے اس کا پورا بھاڑا وصول کیا۔ پچاس روپے۔ وہ بولتا تھا بشارت سیٹھ دُلدل بھاڑے ٹیکسی پہ چلانا مانگتا ہے۔ دُلدل کے آگے وہ شاہ مرداں، شیرِیزداں، وگیرہ وگیرہ گاتا جا رہا تھا۔ اس کے پندرہ روپے الگ سے۔ گھوڑے کو ہمارے پاس بھی سلام کرانے لایا تھا۔ گریب بال بچے دار مانس ہے۔”

اس کے اگلے روز مولانا کام پر نہیں آئے۔ دو دن سے مسلسل بارش ہو رہی تھی۔ چار دن قبل جیسے ہی ریڈیو کراچی والوں نے بارش کا پہلا قطرہ گرتے دیکھا ساون کے گیت مسلا دھار نشر کرنے شروع کر دیے۔ گیتوں ہی سے اطلاع ملی کہ یہ ساون ہے ورنہ ساون کے مہینے کو کراچی میں کون پہچانتا ہے۔ لیکن ذرا سوچیے تو، گیت میں اگر ساون کے بجائے جون جولائی تو برکھا رُت کا سارا رومانس پُروا اڑا کر لے جائے۔ وہ مسکرا دیے۔ آج صبح گھر سے چلتے وقت کہہ آئے تھے ” بیگم! آج تو کڑھائی چڑھنی چاہیے۔ کراچی میں تو ساون کے پکوان کو ترس گئے۔ خستہ سموسے، کرارے پاپڑ اور کچوریاں۔ کراچی کے پپیتے کھا کھا کے ہم تو بالکل پلپلا گئے۔ ” شام کو جب وہ دکان بند کرنے والے تھے، ایک شخص خبر لایا کہ کل شام مولانا کے والد کا انتقال ہو گیا۔ آج ظہر و عصر کے درمیان جنازہ اٹھا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ چلو اچھا ہوا۔ اللہ نے بیچارے کی سُن لی۔ برسوں کی جان کنی ختم ہوئی۔ مٹی عزیز ہو گئی۔ بلکہ یوں کہیے، کیچڑ سے اٹھا کر کر خشک مٹی میں دبا آئے۔ وہ تعزیت کے لیے سیدھے مولانا کے گھر پہنچے۔ بارش تھم چکی تھی اور چاند نکل آیا تھا۔ آسمان پر ایسا لگتا تھا جیسے چاند بڑی تیزی سے دوڑ رہا ہے اور بادل اپنی جگہ ساکت ہیں۔ اینٹوں، پتھروں اور ڈالڈا کے ڈبوں کی پگڈنڈیاں جا بجا پانی میں ڈوب چکی تھیں۔ ننگ دھڑنگ لڑکوں کی ایک ٹولی پانی میں ڈبک ڈبک کرتے ایک گھڑے میں باری باری منہ ڈال کر فلمی گانے گا رہی تھی۔ ایک ڈھئی ہوئی جھگی کے سامنے ایک کریہہ الصّوت شخص بارش کو روکنے کے لیے اذان دیے چلا جا رہا تھا۔ ہر جزو کے آخری لفظ کو اتنا کھینچتا گویا اذان کے بہانے پکا راگ الاپنے کی کوشش کر رہا ہے۔ کانوں میں انگلی کی پور زور سے ٹھونس رکھی تھی تاکہ اپنی آواز کے عزاب سے محفوظ رہے۔ ایک ہفتے پہلے اسی جھگی کے سامنے اسی شخص نے بارش لانے کے لیے ازانیں دی تھیں۔ اسوقت بچوں کی ٹولیاں گھروں کے سامنے مولا میگھ دے ! مولا پانی دے  تال، کنویں، مٹکے سب خالی۔ مولا! پانی! پانی! پانی!” گاتی اور ڈانٹ کھاتی پھر رہی تھیں۔

عجیب کسمپرسی کا عالم تھا۔ کہیں چٹائی، ٹاٹ، سرکی اور اخبار کی ردی سے بنی ہوئی چھتوں کے پیالے پانی کے لبالب بوجھ سے لٹکے پڑ رہے تھے اور کہیں گھر کے مرد پھٹی ہوئی چٹائیوں میں دوسری پھٹی ہوئی چٹائیوں کے پیوند لگا رہے تھے۔ ایک شخص ٹاٹ پر پگھلا ہوا تارکول پھیلا کر چھت کے اس حصے کے لیے تر پال بنا رہا تھا جس کے نیچے اس کی بیمار ماں کی چارپائی تھی۔ دوسرے کی جھگی بالکل ڈھیر ہو گئی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا مرمت کہاں سے شروع کرے۔ چنانچہ وہ ایک بچے کی پٹائی کرنے لگا۔ جگہ جگہ لوگ نالیاں بنا رہے تھے جن کا مقصد بظاہر اپنی غلاظت کو پڑوسی کی غلاظت سے علیحدہ رکھنا تھا۔ ایک صاحب آٹے کی بھیگی بوری میں بغل تک ہاتھ ڈال ڈال کر دیکھ رہے تھے کہ اندر کچھ بچا بھی ہے کہ سارا پیڑے بنانے کے لائق ہو گیا۔ ایک جھگی کے باہر بکری کی اوجھڑی پر برساتی مکھیاں چپکو اور لدّھڑ ہو گئیں تھیں، خارشی کتّے کے اُڑائے سے نہیں ‌اُڑ رہی تھیں۔ یہ اس دودھ دینے والی مگر بیمار بکری کی اوجھڑی تھی جسے تھوڑی دیر پہلے اس کے دو مہینے کے بچے سے ایک گز دور تین پڑوسیوں نے مل کر تُرت پھُرت ذبح کیا تھا تاکہ چھری پھرنے سے پہلے ہی ختم نہ ہو جائے۔ اس کا خون معاون نالوں اور نالیوں کے ذریعے دور دور تک پھیل گیا تھا۔ وہ تینوں ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے ایک بھائی کی حق حلال کی کمائی کو ضائع ہونے سے بال بال بچا لیا۔ موت کے منہ سے کیسا نکالا تھا انھوں نے بکری کو! چند جھگیوں میں مہینوں بعد گوشت پکنے والا تھا۔ سب سے زیادہ حیرت انھیں اس وقت ہوئی جب وہ اس جھگی کے سامنے سے گزرے جس میں لڑکیاں شادی کے گیت گا رہی تھیں۔ باہر لگی ہوئی کاغذ کی رنگ برنگی جھنڈیاں تو اب نظر نہیں آ رہی تھیں، لیکن ان کے کچے رنگوں کے باؤلے ریلوں سے ٹاٹ کی دیوار پر psychedelic patterns بن گئے تھے۔ ایک لڑکی آٹا گوندھنے کے تسلے پر سنگت کر رہی تھی کہ بارش سے اس کی ڈھولک کا گلا بیٹھ گیا تھا:

اماں ! میرے بابا کو بھیجو ری کہ ساون آیا!

امّاں ! میرے بھیا کو بھیجو ری کہ ساون آیا

کہ ساون آیا

ہر بول کے بعد لڑکیاں بے وجہ ہنستیں۔ گاتے ہوئے ہنستیں اور ہنستے ہوئے گاتیں تو راگ اپنی سُر سیما پار کر کے جوانی دوانی کی لے میں لے ملاتا کہیں اور نکل جاتا۔ سچ پوچھیے تو کنوار پنے کی کلکارتی گھنگھرالی ہنسی کی مُرکی ہی گیت کا سب سے البیلا ہریالا انگ تھا۔ ایک جھگّی کے سامنے میاں بیوی لحاف کو رسّی کی طرح بل دے کر نچوڑ رہے تھے۔ بیوی کا بھیگا ہوا گھونگھٹ ہاتھی کی سونڈ کی طرح لٹک رہا تھا۔ بیس ہزار کی اس بستی میں دو دن سے بارش کے سبب چُولہے نہیں جلے تھے۔ نشیبی علاقے کی کچھ جھگیوں میں گھٹنوں گھٹوں پانی کھڑا تھا۔ جھگیّوں کی پہلی قطار کے سامنے ایک نیک نیت، خدا ترس، باریش بزرگ قورمہ اور تنوری روٹیاں تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو وہ رکشا میں رکھ کر لائے تھے۔ تین لحاف بھی مستحقین میں بانٹنے کے لیے ساتھ لائے تھے۔ وہ گھر سے چلے تو انھیں اندازہ نہیں تھا کہ بیس ہزار کی بستی میں تین لحاف لے جانا ایسا ہی ہے جیسے کوئی انجکشن کی سرنج سے آگ بجھانے کی کوشش کرے۔ پھر یہ بھی تھا کہ کسی جھگّی میں دو گز زمین کا ایسا خشک جزیرہ نہ تھا جہاں کوئی یہ لحاف اوڑھ کر سو سکے۔ اس بزرگ کے چاروں طرف کوئی ڈیڑھ دو سو ننگ دھڑنگ بچوں کا ہجوم جسے وہ کیو بنانے کے فوائد سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ان اَن پڑھ ٹھوٹ بچوں کی حِس حساب ان سے کہیں بہتر تھی، کیوں کہ ان کے اندر والا بھوکا حساب داں بخوبی جانتا تھا کہ اگر تیس روٹیوں کو دو سو ننگے بھوکوں اور تین لحافوں کو بیس ہزار مستحقین میں تقسیم کیا جائے تو حاصل تقسیم میں مخیر بزرگ کے تن پر ایک دھجّی بھی باقی نہ رہے گی۔ اور اس وقت یہی صورت پیدا ہو چلی تھی۔ بشارت آگے بڑھے تو دیکھا کوئی جھگّی ایسی نہیں جہاں سے بچوں کے رونے کی آواز نہ آ رہی ہو۔ پہلی مرتبہ ان پر یہ انکشاف ہوا کہ بچے رونے کی ابتدا ہی انترے سے کرتے ہیں۔ جھگّیوں میں آدھے بچّے تو اس لیے پٹ رہے تھے کہ رو رہے تھے۔ اور بقیہ آدھے اس لیے رو رہے تھے کہ پٹ رہے تھے۔

وہ سوچنے لگے، تم ایک شخص کو پُرسا دینے چلے تھے، یہ کس دکھ ساگر میں آ نکلے۔ طرح طرح کے خیالوں نے گھیر لیا۔ بڑے میاں کو تو کفن بھی بھیگا ہوا نصیب ہوا ہو گا۔ یہ کیسی بستی ہے جہاں بچے نہ گھر میں کھیل سکتے ہیں، نہ باہر۔ جہاں بیٹیاں دو گز زمین پہ ایک ہی جگہ بیٹھے بیٹھے درختوں کی طرح بڑی ہو جاتی ہیں۔ جب یہ دلہن بیاہ کر پردیس جائے گی تو اس کے ذہن میں بچپن اور میکے کی کیا تصویر ہو گی؟ پھر خیال آیا کیسا پردیس، کہاں کا پردیس، یہ تو بس لال کپڑے پہن کر یہیں کہیں ایک جھگّی سے دوسری جھگّی میں پیر پیدل چلی جائے گی۔ یہی سکھیاں سہیلیاں "کاہے کو بیاہی بدیس رے ! لکھی بابل مورے !” گاتی ہوئے اسے دوگز پرائی زمین کے ٹکڑے تک میں چھوڑ آئیں گی۔ پھر ایک دن مینہ برستے میں ایسا ہی سماں ہو گا، وہاں سے آخری دو گز زمین کی جانب ڈولی اٹھے گی۔ اور زمین کا بوجھ زمین کی چھاتی مین سما جائے گا۔ مگر سنو! بندہ خدا! تم کاہے کو یوں جی بھاری کرتے ہو؟ کہیں اس طرح آنکھوں میں پانی بھر کے دنیا کو دیکھا کرتے ہیں ؟ درختوں کو کیچڑ گارے سے گھن تھوڑا ہی آتی ہے۔ کبھی پھول کو بھی کھاد کی بدبو آئی ہے ؟

انھوں نے ایک پھریری لی اور ان کے ہونٹوں کے دائیں کونے پر ایک کڑوی سی، ترچھی سی مسکراہٹ کا بھنّور پڑ گیا۔ جو رونے کا یارا نہیں رکھتے وہ اسی طرح مسکرا دیتے ہیں۔

انھوں نے پہلے پہل اس اگھور بستی کو دیکھا تھا تو کیسی ابکائی آئی تھی۔ آج خوف آ رہا تھا۔ بھیگی بھیگی چاندنی میں یہ ایک شہرِ آسیب لگتا تھا جو کسی طور کراچی کا حصہ نہیں معلوم ہوتا تھا۔ حدِ نگاہ تک اونچے نیچے بانس ہی بانس۔ اور ٹپکتی چٹائیوں کی گپھائیں۔ بستی نہیں بستی کا پنجر لگتا تھا جسے ایٹمی دھماکے کے بعد بچ جانے والوں نے کھڑا کیا ہو۔ ہر گڑھے میں چاند نکلا ہوا تھا اور مہیب دلدلوں پر آسیبی کرنیں اپنا چھلاوا ناچ ناچ رہی تھیں۔ جھینگر ہر جگہ بولتے سنائی دے رہے تھے اور کسی جگہ نظر نہیں آ رہے تھے۔ بھُنگوں اور پتنگوں کے ڈر سے لوگوں نے لالٹینیں گل کر دیں تھیں۔ عین بشارت کے سر کے اوپر سے چاند کو کاٹتی ایک ٹیٹری بولتی ہوئی گزری۔ اور انھیں ایسا لگا جیسے اس کے شہ پَر کی ہَوا سے ان کے سر کے بال اُڑے ہوں۔ نہیں۔ یہ سب کچھ ایک بھیانک خواب ہے۔ جیسے ہی وہ موڑ سے نکلے، اگربتیوں اور لوبان کی ایک سوگوار لپٹ آئی اور آنکھیں ایکا ایکی چکا چوند ہو گئیں۔ یا خدا! ہوش میں ہوں یا عالمِ خواب ہے ؟

کیا دیکھتے ہیں کہ مولانا کرامت حسین کی جھگّی کے دروازے پر ایک پیٹرومیکس جل رہی ہے۔ چار پانچ پُرسا دینے والے کھڑے ہیں۔ اور باہر اینٹوں کے ایک چبوترے پر ان کا سفید براق گھوڑا بلبن کھڑا ہے ! مولانا کا پولیو زدہ بیٹا اس کو پڑوسی کے گھر سے آئے ہوئے موت کے کھانے کے نان کھلا رہا تھا۔

مشتاق احمد یوسفی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.