یوم مزدور
عجب جہان میں تو نے مجھے اتارا تھا
مری جبیں پہ کسی اور کا اِجارہ تھا
مِٹی مِٹی سی ہتھیلی مری ہتھیلی تھی
بجھا بجھا سا ستارہ مرا ستارہ تھا
جگر کا خون جلانے میں رات کاٹی تھی
شکم کی آگ بجھانے میں دن گذارا تھا
رُتوں کے وار کلیجے نے بار بار سہے
دنوں کا بوجھ بدن نے بہت سہارا تھا
وہ دستِ غیب مجھے تو دکھائی تک نہ دیا
وہ کون لوگ تھے جن کو ترا سہارا تھا
ازل ابد نے اسی گھر میں آنکھ کھولی تھی
یہیں پہ کھنکی تھی مٹّی، یہیں پہ گارا تھا
میں چل پڑا تو مرے خانہ ساز وہموں نے
قدم قدم پہ خداؤں کا روپ دھارا تھا
وہ میرے اپنے تخیّل کا نور تھا جس نے
مرے گمان میں آ کر مجھے پکارا تھا
نہیں کہیں بھی نہیں تھا گمان کا ساحل
میں جس سے لِپٹا ھوا تھا وہی کنارہ تھا
تمھارے عدل کی مِنّت گذار آنکھ نہ تھی
بس ایک خواب تھا جس پر مرا گذارا تھا
شہزاد نیّرؔ