"تو میرا عشق ہے”
ہاں مجھے تم سے عشق ہے اتنا کے ایک شہد کی مکھی کو رس بھرے پھولوں سے،مسافر کو منزل سے،بھوکے کو روٹی سے ،پیاسے کو پانی سے میرا تم سے ایسا لازوال رشتہ ہے۔لوگ تو صرف محبت کرتے ہیں ہم نے پہلے درجے سے عشق کیا ہے۔میری عزیز از جان اردو زبان۔ہاں کبھی کبھار تھوڑا تھک جاو یا کچھ نئے کی تلاش ہو تو انگلش میں تانکا جھانکی کر لیتی مگر فنا تو تجھی پہ ہے میرا۔تم تو سادگی میں بھی انتہا رکھتی کو دیکھ لو خود کو
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
چین کے صدر جب پاکستان دورے پہ تشریف لائے تو اپنی قومی زبان چائینیز میں خطاب کیا جسکو ٹرانسلیٹ کیا گیا اس وقت ساتھ اور یہ بتایا گیا کے چین گونگا نہیں وہ اپنی زبان جانتا ہے۔جبکہ ہم ہیں انگریجی آئے نا آئے بات اور خطاب تو اسی میں کرنا ورنہ پڑھے لکھے کیسے ثابت ہونگے ہم۔ہمارے ہاں عقل کا معیار انگریزی کو بنا دیا گیا ہے۔اردو کو بس دکھاوے کے طور پر پچھلے 70 سالوں سے کاغذوں میں قیدی بنا کر رکھا گیا کے تم قومی زبان ہو بھاگ مت جانا۔چھوٹے سے آرڈینس سے لے کر بڑے سے خطاب تک اور پنساری کی شاپ سے لے کر سبزی فروش کی ریٹ لسٹ تک انگلش میں جاری کی جاتی ہیں جسکو سمجھنے کے لئیے دوسروں سے پوچھنا پڑتا ہے ارے بھئی جب انگلش ہی لکھنی بولنی تو اردو کا کیا قصور کے وہ تہ بند رہے۔یہ دوغلہ پن کیوں حکومتی پالیسیوں میں۔ وہ لوگ قوم کی خفاظت کیا کریں گے جو اب تک اپنی سرکاری زبان کو ہی ناخفاظت دے پائے۔جبکہ قائد نے کہا تھا
"ہماری قومی زبان صرف اور صرف اردو ہے”
آج ہم نےملک کو دماغی خانہ جنگی میں جھونک دیا ہے۔ہمارے ادارے اردو میڈیم انگلش میڈیم اور مدارس کے بچے پیدا کررہے انکی دماغی صلاحیتیوں مو مفلوج اور احساس کمتری میں مبتلا کر رکھا ہے صرف اور صرف وجہ ایک زبان اور ہے۔سوچیں اگر ہم صرف اردو کو رائج کر کے سارے ملک کے ادارے یکساں چلاتے تو آج ملک کے وفادار پیدار ہوتے نا کے طبقوں کے۔سب کو انگریزی کے پیچھے نہیں بلکہ قابلیت کے پیچھے لگایا جاتا تو ملک کو فائدہ ملتا اور ترقی ہوتی۔بلواسطہ یا بلاواسطہ اردو زبان کو نافذ نا کر سکنے کی کمی نے ہمارے معاشرے کے درمیان گہرا شگاف پیدا کردیا ہے جسکو صرف اور صرف اردو ہی بھر سکتی ہے۔ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آج جتنے بھی ملک کھڑے ہیں وہ صرف اس واسطے کے اپنی زبان اور راویات کی خفاظت کرتے ہیں۔اپنے بچوں کو اس زبان میں سکھاتے اور قابل بناتے ہیں جو انکی اپنی ہے۔جبکہ ہمارے ہاں کتابیں پڑھوں انگلش میں سرکل میں اردو بولو گھروں میں پنجابی یہ ہے ہمارا دوہرا پن ہمیں خود نہیں معلوم ہم کس سمت چل رہے ہیں۔جو انگریجی سیکھ جاتے ہیں وہ پھر انگلش ماحول ہی اپناتے ہیں اور دیگر ممالک کو کوچ کر کے وہاں اپنی خدمات پیش کرتے ہیں نا کے اپنے ملک میں رہ کر اس کی تعمیر میں حصہ ڈالتے ہیں۔ہسٹری کے دو بڑے ٹرننگ پوائنٹ عرب اور یورپ ممالک جس وقت وجود میں آئے ان کے پاس چند کتابوں کے علاوہ جو انکی اپنی زبان میں تھی اور کچھ نا تھا۔مگر انہوں نے پاگلوں کی طرح محنت کی فلسفہ ،طب،سائنس، ٹیکنالوجی، زراعت غرضیکہ کے ہر موضوع کی کتابیں راتوں رات اپنی زبان میں ٹرانسلیٹ کی اور ملک کے ہر شہری کو پڑھنے کی ترغیب دی۔آج آپکو فلسفے سے لے کر ادب اور طب سے لے کر سائینس تک ہر کتاب اور کسی زبان میں ملے نا ملے عربی اور انگلش میں ملے گی وجہ انہوں نے اپنی زبان کا احترام کیا۔اور اردو تو وہ میٹھی اور گہری زبان ہے کے ہر زبان کے لفظ اپنے اندر سمونے کی طاقت رکھتی ہے۔آسانی سے سمجھ آجانے والی زبان ہے۔کیوں ہم غیر زبان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں بے شک زبان سیکھنا برا عمل نہیں مگر اسکو خود پہ لاگو کر لینا غلط بات ہے۔ہمارے ہاں شرح خواندگی ہی 40فیصد سے اوپر نہیں گئی تو ہم کیا انگلش دیواروں کو سنائیں گے۔ترقی کا راز صرف اور صرف قومی زبان ہوتی ہے
سلیقے سے ہواوں میں خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
صد شکر کے آج بھی پاکستان میں اردو زبان کے دیوانے موجود ہیں جو اپنے تئیں تمام تر کوششیں کر رہے ہیں اردو کے نفاذ کی۔تحریک اردو ادب کا نفاذ شاعر ،ادیب نقاد یہ ہماری قوم کا سرمایہ ہے جو زبان و بیان کو جانتے ہیں۔زبانیں تو رابطوں کا ذریعہ ہوتی ہے اور جب ذریعہ کمزور ہو تو عوام اور حکومت کا ردست رابطہ کیسے ممکن ہے۔زرا نہیں پورا سوچیں آج ہم کس مقام پہ کھڑے ہیں نا ہم آگے کے اور نا پیچھے کے ہیں۔اردو کے نفاذ کے لئیے تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو ایک ہونا پڑے گا تب ممکن ہے۔وگرنہ باقی کام تو حکومتی پالیسیوں کا ہوتا ہے جو کے پچھلے 70 سال سے اردو پہ آکر جمود کا شکار ہیں۔اس وقت قوم بن کر قومی زبان کا سوچئے ناکہ پنجابی پشتوں اور سندھی بن کر مادری زبانوں کے لئیے لڑئیے۔ہم صرف پاکستانی ہیں
اقرا جبین