تنہا، سر انجمن کھڑی تھی
میں اپنے وصال سے بڑی تھی
اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر
پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی
اک عمر تلک سفر کیا تھا
منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی
طالب کوئی میری نفی کا تھا
اور شرط یہ موت سے کڑی تھی
وہ ایک ہوائے تازہ میں تھا
میں خواب قدیم میں گڑی تھی
وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا
میں اپنے حضور میں کھڑی تھی
ثمینہ راجہ