سید علی شاہ گیلانی کا ورثہ: کشمیر کی آزادی
سید علی شاہ گیلانی کشمیری عوام کے وہ عظیم رہنما تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی حقِ خود ارادیت اور آزادی کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی۔ وہ محض ایک سیاست دان نہیں بلکہ کشمیری عوام کے ضمیر اور حوصلے کی آواز تھے۔ ان کی شخصیت اس بات کی جیتی جاگتی مثال تھی کہ ظلم اور جبر کے سامنے ڈٹ جانا ہی حقیقی قیادت کی پہچان ہے۔
گیلانی کی زندگی قید و بند کی صعوبتوں، نظر بندیوں اور پابندیوں سے عبارت تھی۔ بھارتی حکومت نے انہیں بارہا گرفتار کیا، برسوں تک گھروں میں نظر بند رکھا، مگر ان کا عزم اور حوصلہ کبھی متزلزل نہ ہوا۔ جیل کے اندھیروں اور مسلسل نگرانی نے ان کی آواز دبانے کی کوشش کی، لیکن یہ آواز کشمیری عوام کے دلوں میں اور زیادہ قوت کے ساتھ گونجتی رہی۔
وہ حریت کانفرنس کے اہم رہنما رہے اور انھوں نے ہمیشہ یہ واضح مؤقف اپنایا کہ کشمیری عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ گیلانی نوجوانوں کو تعلیم اور شعور کی طرف راغب کرتے
اور بتاتے کہ آزادی قربانی مانگتی ہے۔ جو قوم اپنی شناخت پر قائم رہتی ہے، اسے دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی۔
گیلانی کی جدوجہد محض نعروں یا بیانات تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ اپنی ذات کو قربانی کی علامت بنا گئے۔ اپنی زندگی کا بڑا حصہ انہوں نے جیلوں اور نظر بندیوں میں گزارا، مگر کبھی مایوس نہ ہوئے۔ ان کی شخصیت کشمیری عوام کے لیے امید اور حوصلے کا چراغ تھی، جو ہر اندھیرے میں روشنی دکھاتا رہا۔
2021 میں جب سید علی شاہ گیلانی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو بھارتی حکومت نے ان کے جنازے اور تدفین پر بھی سخت پابندیاں عائد کر دیں۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت تھا کہ بھارت ان کی مقبولیت اور کشمیری عوام کے دلوں میں ان کے مقام سے خوفزدہ تھا۔ لیکن یہ پابندیاں گیلانی کے اثر کو ختم نہ کر سکیں، بلکہ ان کی جدوجہد کو اور بھی زندہ کر گئیں۔
سید علی شاہ گیلانی کی زندگی اور جدوجہد کشمیری عوام کے لیے ایک روشن ورثہ ہے۔ انہوں نے دکھایا کہ اصولوں پر ڈٹے رہنا اور حق کے لیے قربانی دینا ہی حقیقی قیادت ہے۔ آج بھی کشمیری عوام ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
گیلانی کی حیات ایک پیغام ہے: ظلم کے سائے کتنے ہی گھنے کیوں نہ ہوں، حق کی آواز کبھی دبائی نہیں جا سکتی۔ ان کی قربانیاں اور حریت کی جدوجہد ہمیشہ کشمیری عوام کے لیے مشعلِ راہ رہیں گی۔
یوسف صدیقی







