آپ کا سلاماردو نظمشعر و شاعریگلناز کوثر

سفر

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

تھکے تھکے سے پاؤں

دُور منزلوں کے سلسلے عجیب سے

وہ سامنے پڑاؤ بھی

مگر نہ جانے کیوں ہر ایک بار پھیلتے رہے ہیں

سامنے نگاہ کے

یہ رنگ ہیں کہ راستے

بڑھی ہے لہر کاٹتی ہے کلبلاتی ڈوریاں

یہ لہر درد کی ہے یا کچھ اور ہے

عجیب ہے

تھکے تھکے سے پاؤں

اندھے راستوں پہ بیکراں مسافتیں

بڑھاؤ ہمتیں، کوئی بھی گیت چھیڑ دو مگر رکو نہیں

کٹے پھٹے وجود کو کسی بھی تال پر چڑھاؤ

دھڑکنوں کو جوڑ لو

یہ گیت، تال، دھڑکنیں

یہ تیرگی کا، روشنی کا فرق اور فاصلہ عجیب ہے

یہ میں ہوں میری منحنی پکار سن کے

ڈولنے لگا ہے یہ جہان کہ رہا ہے وہم دیر سے

پکارتے رہے ہیں میرے ساتھ

میرے لوگ میرے ساتھ ہیں

کہ چل رہے ہیں گرد رنگ راستے

اُمڈ رہی ہیں بدلیاں

یہ گاڑھے گاڑھے بادلوں کے غول

گرد راستوں کا میل بھی عجیب ہے

میں قید ہوں کسی گھڑی کی پھیلتی خلاؤں میں

کہ تیرتا ہے وقت ڈولتا رہا ہے زندگی کے ساتھ ساتھ جسم کی گپھاؤں میں

عجیب ہے

یہ وقت، درد، راستہ

یہ جسم بھی یہ جان بھی

یہ زندگی کا سلسلہ

عجیب ہے

گلناز کوثر

گلناز کوثر

اردو نظم میں ایک اور نام گلناز کوثر کا بھی ہے جنہوں نے نظم کے ذریعے فطرت اور انسان کے باطن کو ہم آہنگ کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ گلناز کوثر کا تعلق لاہور سے ہے تاہم پچھلے کچھ برس سے وہ برطانیہ میں مقیم ہیں، انہوں نے اردو اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ایل بی کی تعلیم بھی حاصل کی، البتہ وکیل کے طور پر پریکٹس کبھی نہیں کی۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے ریسرچ اینڈ پبلیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ رہیں، علاوہ ازیں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے عالمی ادب بھی پڑھایا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ دو ہزار بارہ میں ’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button