اے ہم نفس بتا تو۔ ۔ ۔
کب تلک بھلا میں
تیرے دھیان کی سرگوشیوں کو
اپنی روح میں بسا کر
تجھ سے گفتگو کرتی رہوں گی ؟
اب تو تتلی کے پروں سے ہار بُنتے بُنتے
ہاتھ تھک گئے ہیں
جو دُعا کے موسم تھے ، گزر گئے ہیں
اب جو فاصلوں کے
گہرے کالے بادل درمیاں ہیں
یہ آنکھوں میں چبھتے رہتے ہیں
شکست اوڑھے قربتوں کے پل
اب دھڑکنوں کو ڈستے رہتے ہیں
لبوں نے ساری سسکیاں
مری آنکھوں کو سونپ دیں ہیں
خود کو کب تلک میں
آنسوؤں کی بارش میں ہرا رکھوں گی؟
ناہید ورک