روشنی میں گواہ کرتا ہے
کون دن کو سیاہ کرتا ہے
اِک ستارہ فلک سے گرتے سمے
صرف مجھ پر نگاہ کرتا ہے
دیکھ دُنیا نہیں ہے اِس قابل
کس لیے رسم و راہ کرتا ہے
یعنی انسان کچھ نہیں کرتا
انتہائی گناہ کرتا ہے
وہ کرم کی نظر نہیں کرتا
ہاں مگر گاہ گاہ کرتا ہے
دل مرا آئینے کی صورت میں
آپ کا اشتباہ کرتا ہے
وہ مسافر جو آخری دم تک
راستے سے نباہ کرتا ہے
عشق میں کس لیے قدم رکھا
رکھ لیا ہے تو آہ کرتا ہے
کتنا شیطان ہے دلِ مشتاق
خواہشِ مہر و ماہ کرتا ہے
میں بھی لکھتا ہوں خط میں شعر اسے
وہ بھی کاغذ سیاہ کرتا ہے
جب تجھے شعر کا شعور نہیں
کس لیے وا واہ کرتا ہے
دلاور علی آزر