پچھلے وقتوں میں بھی بستے تھے انسان یہاں
دنیا مسافر خانہ ہے جو آیا وہ رہا مہمان یہاں
جانور پہلے بھی تھے مگر قدر مختلف یاروں
دندناتے پھرتے ہیں کھلے عام اب تو حیوان یہاں
نہ رہی عزت و احترام والی کوئی بات بھی اب
رہتا ہے ہر عزت والا اسی لئے بس پریشان یہاں
سردی گرمی خزاں بہار ہر موسم کا تھا اپنا رنگ
ہر جگہ نظر آتا ہے اب تو بس موسم خزاں یہاں
محبت خلوص اور بھائی چارہ تھا پہلے تو یاروں
ہر کوئی نظر آتا ہے اب دولت پر ہی مہربان یہاں
مناسب نہیں بھاگتے رہنا دولت کے پیچھے اور اپنے
رشتوں ناتوں کی جلا کر وہ ساری کشتیاں یہاں
وہی صبح وہی شام وہی رات دن کے اپنے انداز
وہی دریا و سمندر وہی زمین اور نیلا آسمان یہاں
قدرت کا اک اک نظارہ وہی ہے اس دنیا میں اب تک
سب کچھ ویسا ہی ہے بس بدلا ہے تو انسان یہاں
محبت کرو محبت بانٹو اور محبت کو ہی پھیلاؤ
نفرتوں کو نکال کر دلوں میں بھردو خوشیاں یہاں
دعا ہے یوسف کی اس دور کے انسانوں میں یا رب
وہ شعور بیدار کر کہ جو ہمیں دیتا ہے قرآن یہاں
یوسف برکاتی