آپ کا سلاماردو افسانےاردو تحاریرشاکرہ نندنی

قہقہوں کے سائے میں

گمشدہ پیاس کا سفر (حصہ پنجم)

قہقہوں کے سائے میں گمشدہ پیاس کا سفر (حصہ پنجم)

پلوشہ کی محبت، باکو اور الوداع

پلوشہ ہوٹل کے کمرے سے روانہ ہو چکی تھی۔ اس کی بائیک عبدالکریم الزادے مین روڈ پر چل رہی تھی، مگر اس کے دل میں ایک عجیب سی بےچینی تھی۔

پلوشہ (خود سے):
"کیا رے میرے لیے بہتر رہے گا؟ کیا اس کی مہمان نوازی کا احسان صرف ایک رات کا تھا؟ کیا مجھے کچھ دن اور رک کر اس کے غموں کا مداوا نہیں کرنا چاہیے تھا؟”

بائیک اچانک ایک جھٹکے سے مڑتی ہے۔

پلوشہ (خود سے):
"نہیں! میں ایسے نہیں جا سکتی۔ میں اس کے ساتھ کچھ دن گزاروں گی۔ شاید میں بھی اس کے لیے کچھ کر سکوں۔”

پلوشہ ہوٹل پہنچتی ہے اور رے کے کمرے کا دروازہ زور زور سے بجاتی ہے۔ دروازہ کھلتے ہی وہ اندر داخل ہوتی ہے اور سیدھا رے کے سینے سے لپٹ جاتی ہے۔

پلوشہ (زار و قطار روتے ہوئے):
"رے، کیا تم میرے ساتھ کچھ دن اور گزارو گے؟ میرے ساتھ باکو کی سیر کرو گے؟ کیا رات کو مجھے اپنی خوابوں کی رانی بناؤ گے؟ میں ہر طرح سے تمہیں راجہ کا پروٹوکول دوں گی

رے، جو ابھی بھی حیرت کے عالم میں تھا، روبوٹ کی طرح جواب دیتا ہے:
"ہاں، پلو۔ ہاں، پلو۔”

پلوشہ کے آنسو تھم جاتے ہیں، اور وہ رے کو چومنے لگتی ہے۔ رے بھی اس کا بھرپور جواب دیتا ہے۔

اگلے چار دن پلوشہ اور رے نے ایک دوسرے کے ساتھ گزارے۔ دن کے وقت وہ باکو کی خوبصورتی کا لطف اٹھاتے۔

ہیئدار علیئیو سینٹر
پلوشہ:
"رے، یہ جگہ کتنی خوبصورت ہے۔ یہاں کی آرکیٹیکچر مجھے حیران کر رہی ہے!”

رے (مسکراتے ہوئے):
"پلو، تم بھی اس جگہ کی خوبصورتی کا حصہ بن گئی ہو۔”

ڈینزکناری ملی پارک
رے:
"پلو، تمہارے ساتھ یہ لمحے میرے لیے خواب کی طرح ہیں۔”

پلوشہ (ہنستے ہوئے):
"بس ان خوابوں کو حقیقت میں بدلنا مت بھولنا۔”

پلوشہ:
"رے، تم میرے راجہ ہو۔ میں تمہارے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہوں۔”

رے:
"پلو، تم میری زندگی کی روشنی ہو۔”

ایک ہفتے کے بعد، پلوشہ نے رے سے کہا کہ اسے اب آگے نکلنا ہے۔

پلوشہ (اداسی کے ساتھ):
"رے، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم جدا ہو جائیں۔ میری نئی منزل تُرکی ہے۔”

"پلو، میں تمہیں چھوڑنا نہیں چاہتا۔ لیکن اگر یہ تمہارے سفر کا حصہ ہے تو میں تمہیں روک نہیں سکتا۔”

رے نے پلوشہ کو آدھے گھنٹے تک سینے سے لگائے رکھا۔ پھر ایک گفٹ پیکٹ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا:
"یہ تحفہ تمہارے لیے ہے۔ تُرکی کے بارڈر پر پہنچ کر اسے کھولنا، اس سے پہلے نہیں۔”

پلوشہ نے رے کو الوداعی بوسہ دیا اور بوجھل قدموں کے ساتھ اپنی بائیک پر سوار ہو گئی۔

رے (دور سے آواز دیتا ہوا):
"پلو، ہمیشہ خوش رہنا! اور یاد رکھنا، اگر زندگی نے موقع دیا تو ہم دوبارہ راجہ اور رانی بنیں گے۔”

پلوشہ نے پیچھے مڑ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلایا اور ترکی کی جانب روانہ ہو گئی۔

شاکرہ نندنی

شاکرہ نندنی

میں شاکرہ نندنی ہوں، ایک ماڈل اور ڈانسر، جو اس وقت پورٹو، پرتگال میں مقیم ہوں۔ میری پیدائش لاہور، پاکستان میں ہوئی، اور میرے خاندانی پس منظر کی متنوع روایات میرے ثقافتی ورثے میں جھلکتی ہیں۔ بندۂ ناچیز ایک ہمہ جہت فنکارہ ہے، جس نے ماڈلنگ، رقص، تحریر، اور شاعری کی وادیوں میں قدم رکھا ہے۔ یہ سب فنون میرے لیے ایسے ہیں جیسے بہتے ہوئے دریا کے مختلف کنارے، جو میری زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button