ڈھلے جب شام دل میں روز اک آزار جاگے
کہ جیسے رات میں گاؤں کا پہرے دار جاگے
بہت بے فکر سوتا ہے وہ بے پرواہ لیکن
اسے اب چاہیے میرے لیے یکبار جاگے
دوائی نیند کی کھا لی ہےتا کہ سو سکوں میں
مری آنکھوں میں کوئی خواب کیوں بےکار جاگے
مسلسل میرے ہونٹوں پہ رہے انکار جاری
اور اس انکار میں بے ساختہ اقرار جاگے
سنائی دے پس زنداں ترے قدموں کی آہٹ
اور اس آہٹ پہ در سویا رہے دیوار جاگے
ضمیر آدمیت ششدر و حیران ہے یوں
مثال کہف سویا جیسے پہلی بار جاگے
فرح گوندل