قید میں اس کو دکھاؤ نہیں در، رہنے دو
ٹوٹ جاۓ گا کسی شخص کا گھر، رہنے دو
جاؤ جگنو! مری ترتیب بگڑ سکتی ہے
تم مری ذات کو اندھیر نگر رہنے دو
پر اثر شخص مرے کون ہو؟ کیا لگتے ہو؟
دل میں آتا ہے؛ کہوں تم سے؛ مگر رہنے دو
کچھ مَرَض اپنی دوا آپ ہوا کرتے ہیں
مجھ کو اس روگ کے ہی زیرِ اثر رہنے دو
چھین سکتا ہے یہ احسان کا شر بینائی
میرے محسن کا مجھے نورِ نظر رہنے دو
ایک تارا ہی غنیمت ہے زمیں کا ہم کو
آسمانوں میں وہی شمس و قمر رہنے دو
پھینک ڈالو یہ مرے حال کی سب تصویریں
یادِ رفتہ سے جڑا مور کا پَر رہنے دو
جاؤ لے جاؤ سبھی پھل یہ سبھی پھول مگر
میرے آنگن میں مرا بوڑھا شجر رہنے دو
شہزین وفا فراز