پیغامِ حسینؓ
چشمِ فلک سے اس طرح نظریں ملا کے چل
صبر و رضا کو اپنا مقدر بنا کے چل
پہلے یقینِ پختہ کسی نا خدا پہ رکھ
پھر ساحلوں پہ کشتیاں اپنی جلا کے چل
مقصد بِنا حیات کی سانسیں نہ کر شمار
مقصد ملے تو جان کی بازی لگا کے چل
تیرے لیے کھڑے ہیں سبھی ہاتھ باندھ کر
شمس و قمر کو اپنے ارادے بتا کے چل
کوفہ کے راستے میں کہیں کربلا بھی ہے
آ عشق کے امام کو انگلی تھما کے چل
شازیہ اکبر