میں ایک مرتبہ ایک پُر ہجوم شہر میں سے گزرا تھا
میں منہ چھپائے پھرتا تھا۔۔
بیوی سے آنکھیں چراتا تھا۔۔
بچے سامنے آتے تو یکدم ہکلانے لگتا جیسے میں کسی گناہ کا مرتکب ہونے کو ہوں اور انہوں نے مجھے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے کہ اچھا ہمارے باپ کا یہ کردار ہے۔۔
میرا راز افشا ہوچکا تھا۔۔
اور میں ایک پلّے کی مانند ٹانگوں میں دُم بھینچے خوفزدہ رہتا تھا کہ ابھی وہ پہلا پتھر آئے گا۔۔ میری سنگساری کا پہلا پتھر۔۔دُم دبائے سہما رہتا تھا۔
میں ۔۔ نسیم بخاری، عمر سے ادھیڑتا، ادھیڑ عمری کے تانے بانے میں الجھتا میرے چھدرے ہوتے بال جھلساتی دھوپ کی باریک کرنوں کی برچھیوں کا دفاع نہ کر پاتے اور میری کھوپڑی پر بلا کسی رکاوٹ کے وہ جھلساہٹ چھید کرنے لگتی، آنکھوں کے گرد کوّے کے پنچوں کی مانند حلقے نمودار کب کے ہو چکے تھے، انھیں گھیرے میں لے کر ان کی چمک دمک کو تقریباً بے جان کر چکے تھے۔۔میرے بدن کا ماس ڈھیلا پڑ رہا تھا۔ میں اپنی ہتھیلی کی پشت پر سمٹے ہوئے ماس کو چٹکی بھرتا تو وہ سمٹا رہتا اپنی جگہ پر واپس نہ جاتا، وہیں بے جان حالت میں ٹھہرا رہتا۔۔ نہانے کے بعد جب میں اپنے چھدرے بالوں کو یوں سنوارنے کی کوشش کرتا کہ وہ میرے گنجے ہوتے سر کو کسی حد تک پوشیدہ کر سکیں تو اس لمحے لامحالہ میری نظر اپنے برہنہ سراپے پر جا ٹھہرتی اور مجھے اس سے کراہت محسوس ہونے لگتی۔
ایک عمر رسیدہ بے ڈول ہو چکی ، متعدد بچے جننے کے بعد ایک بے ڈھب لٹکتے ہوئے پیٹ والی بڑھیا کی مانند میرا پیٹ۔۔ پچکے ہوئے کولہے اور جہاں کبھی افتادگی اور خیزگی کے مضمرات وہاں سوائے مُردنی اور بے جانی کے کچھ نہ تھا۔۔ میری جنسی زندگی بھی کب کی پژمردہ اور بے جان ہوچکی تھی ۔۔ ارنسٹ ہینگوے نے اپنی خود نوشت میں لکھا تھا کہ جب ایک مرد کے رس خشک ہو جائیں تو اُس کے زندہ رہنے کا کچھ جواز نہیں ، اُسے خود کشی کر لینی چاہیے ۔۔ اگر زندگی کی پرکھ کے یہی پیمانے ہوتے تو مجھے خود کشی کئے ہوئے بہت سے برس ہو چکے ہوتے غرض کہ میں کسی بھی ادھیڑ عمر مڈل کلاس پاکستانی فرد کی مانند ایک ہموار ، پُروقار اور نارمل زندگی بسر کر رہا تھا اور مطمٰین تھا۔
نہ تو میں اپنی جوانی کی یاد میں آہیں بھرتا دل گرفتہ اور یاس آلود ہوتا اور نہ ہی ان زمانوں کے خواب دیکھتا جن دنوں ہر خواب ہمیشہ ایک گیلاہٹ پرختم ہوتا، جتنے بھی رس تھے وہ خشک ہوچکے تھے اور جتنے بھی سوتے تھے وہ سوکھ چکے تھے اور میں مطمئن تھا۔
ادھیڑ عمری کے سب ساخشانے میری حیات پر نافذ ہو چکے تھے ۔ یعنی میں اب الحمداللہ سنت نبوی کی تتبع میں نہ صرف باریش ہو چکا تھا بلکہ نمازِ پنجگانہ ادا کرنے میں بھی کوتاہی نہ کرتا تھا ۔ میں بیشتر نمازیوں کی مانند وضو کے دوران سرسری طور پر اِدھر اُدھر چھینٹے اڑا کر طہارت کے بنیادی عناصر سے چشم پوشی کرنے والا شخص نہ تھا۔ میں نہایت احتیاط اور تفصیل سے وضو کرنے والا شخص تھا۔۔ برابر بیٹھے ہوئے وضو کرتے کسی شخص کی بے احتیاطی سے اگر ایک چھینٹ بھی میرے لباس پر پڑ جاتی تو میں ہمیشہ دوبارہ وضو کرتا۔۔ لوگ وضو کی حکمت سے آگاہ نہیں ہیں ورنہ وہ ہمہ وقت با وضو رہتے ۔
میں دیر تک سجدے میں گرا رہتا ۔۔ میں نے کسی صوفی بزرگ کا قول پڑھا تھا کہ اگر کوئی سجدے میں اس خیال سے جاتا ہے کہ اُس نے پھر اُٹھنا ہے تو پھر یہ عبادت نہیں ریاضت ہے۔میں اپنی جوانی کی غفلتوں پر پشیمان ہوتا اگرچہ وہ کچھ زیادہ نہ تھیں، آنسو بہاتا مسجد کے فرش پر بچھے۔۔ ایک مخیر تاجر کے فراہم کردہ قالین کو بھگوتا رہتا۔ اگرچہ میں کچھ برسوں سے ماہِ رمضان کے دوران باقاعدگی سے روزے رکھنے لگا تھالیکن نمازِ تراویح ادا کرنے میں غفلت ہو جاتی۔ یہ ایک ایسی کوتاہی تھی جس کا میرے پاس کوئی شرعی جواز نہ تھا سوائے اس کے کہ اتنی دیر تک مسلسل کھڑے کھڑے مجھے نیند آنے لگتی ، تھکاوٹ اور نقاہت سے میرے گھٹنے بھڑنے لگتے اور قرات کے مقدس الفاظ اپنا مفہوم کھو بیٹھتے ، کانوں میں بس مسلسل ایک بھنبھناہٹ ہی اترتی اور میںاپنے آپ کو سرزنش کرتا لیکن اس کا مفہوم واضح نہ ہو پاتا۔
غرض کہ میں ایک مطمئن ، مڈل کلاس، ادھیڑ عمر حیات بسر کرتا ایک کھسیانے سے خاوند کے طور پر اپنی منکوحہ کی ابھی تک سرگرم جائز خواہشات کی تکمیل کرنے سے قاصر کب کا عاجز ہوچکا ایک شخص تھا۔
میں ایک ذمہ دار باپ اور مطیع ادھیڑ عمر خاوند کے طور پر بغیر کسی بڑے حادثے اور شک و شبہات سے بالاتر اپنی زندگی نہایت پاکیزہ گزار رہا تھا جب ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنی زندگی کے اُس واحد جذبے اور اشتیاق کو کیا نام دوں جس کے بارے میں مروجہ اظہار تو یہی ہو سکتا ہے کہ مجھے شاعری کا لپکا تھا۔۔ شاعری کرنے کا نہیں شاعری پڑھنے کا۔۔ اور یہ کوئی ایسا انوکھا جذبہ بھی نہیں لیکن میرے ساتھ ایک حادثہ ہوگیا۔ میں اگر غالب و میر یا مومن وغیرہ کا شیفتہ اور شیدائی ہوتا تو یہ ایک معمول کی کیفیت تھی جو بہت سوں پہ طاری ہوتی ہے لیکن میرے ساتھ حادثہ یہ ہوا کہ میں ممالکِ غیر کے شعرا کی سحر انگیزی میں مبتلا ہو گیا۔
میں اس گرویدگی کا اظہار کھلے عام نہ کر سکتا تھا کہ سکہ رائج الوقت سے انحراف کرنے والے ہمارے معاشرے میں قابلِ تعزیر گردانے جاتے ہیں ۔ اُنہیں اپنی روایتی ثقافتی اقدار سے بے بہرہ ، محب الوطنی اور اپنی زبان سے روگردانی کرنے کے جرم میں مغرب زدہ قرار دے دیا جاتا ہے ۔ میں نہ تو ادب اور شاعری کی لمبی چوڑی پرکھ رکھتا تھا اور نہ ہی مجھ میں تنقید کا کوئی خاص جوہر تھا لیکن میں ادب کا ایک سنجیدہ قاری تھا۔۔ مجھے محسوس ہو ا کہ زبان کے چٹخاروں، لفظوں کے ہیر پھیر ، گُل و بلبل کے یبوست زدہ قصوں ، محبوب اور رقیب کے واویلوں ، نا آسودگی ، نامرادی، آہ و بقا اور بے وفائی کی فریادوں کے سوا ہماری شاعری میں کچھ نہیں۔۔ رنج و الم ، محبوب کی بے وفائی کے رونے ۔۔ اپنے آپ کو دنیا کا بد قسمت ترین شخص ٹھہرانے اور ہمہ وقت موت کی آرزو کرنے کے سوا کچھ نہیں۔۔ رونے دھونے کی اس سیاہ چادر پر اگرچہ کبھی کبھار تصوف کا کوئی چھینٹا بھی پڑ جاتا ہے پر وہ سیاہی کی اس تصویر میں نمایاں نہیں ہو پاتا۔۔ میں کسی بحث کا آغاز نہیں کرنا چاہتا کہ یہ سراسر ایک عام قاری کا ذاتی تجزیہ ہے ، ایک ایسا تصور ہے جو بہر طور خام بھی ہو سکتا ہے کہ شاعری کے جہان اور بھی ہیں جن کی ہمارے شاعروں کو خبر نہیں ہو سکی ۔ پُشکن۔ پٹوفی۔رِلکے۔ناظم حکمت۔فروغ فرخ زاد۔ مایا کوفسکی۔ سویون۔لورکا۔نرودا۔ایذرا پاﺅنڈ۔ایلیٹ۔ نباکوف۔ محمود درویش۔ نزار قبانی۔ رسول حمزہ توف۔۔ ایسے شاعر ہیں جو ہمیں کائناتوں کے سفر میں ہم رکاب کرتے ہیں۔۔ میں یقینا ایک مغرب زدہ شخص ہوں ، بے شک میرے پسندیدہ شعرا میں سے کچھ تو پڑوس میں ہیں ، افریقہ یا جنوبی امریکہ کے ہیں لیکن ہمارے ہاں بلا تخصیص جو کچھ بھی ہماری محدود نگاہی سے باہر ہے وہ سب مغرب ہے اور ہر وہ شخص جو اس محدودیت کے پار نظر کرتا ہے مغرب زدہ ہے۔۔
میری ادھیڑ عمری، نامردی، کھسیانے پن کی بیکار زندگی میں ایک ایسی شام آئی جب میں نہایت انہماک سے ٹیلی ویژن پر نظریں جمائے ایک ایڈیٹ کی مانند کہ اسے ایڈیٹ بوکس بھی کہا جاتا ہے ایک سیاسی مناظرہ دیکھ رہا تھا جس میں فریقین ایک دوسرے کو بھنبھوڑ رہے تھے اور میزبان ایک عیار لومڑمسکراہٹ چہرے پر سجائے اُنہیں ششکارتا تھا جب یکدم ٹیلی ویژن سکرین پر تُرمرے ناچے اور پھر وہ تاریک ہو گئی ۔۔ بجلی جو آتی جاتی رہتی ہے چلی گئی ۔۔ اب میں آپ کو اپنے ایک راز میں شریک کرتا ہوں ۔۔ کہا جاتا ہے کہ ہر غیر معمولی صورتِ حال کی نمود پر حضرتِ انسان کی کچھ غیر معمولی حسیات بھی بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ انہیں بروئے کار لا کر اس صورتِ حال کا سامنا کر لیتا ہے ۔ لوڈ شیڈنگ ہماری زندگیوں کا ایک معمول بن چکی ہے ۔
اس دوران مجھ میں بھی ایک ایسی حس بیدار ہوگئی جس پر اول اول میں نے اور میرے جاننے والوں نے بھی یقین نہ کیا کہ یہ صفت تو صرف پہنچے ہوئے ولی حضرات میں ہی پائی جاتی ہے کہ وہ مستقبل کی پیشن گوئی پر قادر ہوتے ہیں۔۔ جونہی یکدم تمام روشنیاں گُل ہو جاتیں ، ٹیلی ویژن بجھ جاتا، فریزر ایک گرگراہٹ کے ساتھ تھم جاتا، پورا گھر تاریکی کی لپیٹ میں آجاتا تو میں فوراً پیشن گوئی کرتا کہ اب پورے تین گھنٹے اور پچیس کے بعد بجلی کی ترسیل بحال ہوگی۔ یہ وجدان مجھ پر کیسے نازل ہوتا میں عرض کرتا ہوں ہر بار جب بجلی منقطع ہوتی تو ایک خاص انداز میں بلب روشنی جھپکتے گل ہوتے ، ٹیلی ویژن کی اسکرین ہر بار مکمل تاریکی میں مختلف انداز میں اترتی اور فریزر کے تھمنے سے جنم لینے والی گڑگڑاہٹ کی آواز کی رکاوٹ میں فرق ہوتا اور میں ایک ماہر ڈاکٹر کی مانند ان علامات سے تشخیص کر لیتا کہ اب بجلی کتنی مدت بعد واپس آئے گی۔
مجھے اس کرشماتی صلاحیت پر فخرہونے لگا تھا۔۔۔
جس شب کا قصہ میں لے بیٹھا ہوں جو لوڈ شیڈنگ کے باعث ایک شبِ دیجور میں بدل گئی تب میری اس حس نے اطلاع دی کہ اب بجلی تقریبا ً چار گھنٹے اور ساڑھے بائیس منٹ کے بعد آئے گی۔ اس لیے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے رہنا بیکار ہے ۔۔ میں اپنی خواب گاہ میں چلا گیا۔
مجھے نیند نہیں آ رہی تھی ۔
میرے سائیڈ ٹیبل کے دراز میں چین کی ساختہ شولنگ کی بناوٹ کی ایک موم بتی دھری تھی جسے روشن کیا تو وہ موم کے پست معیار کے باعث جلتی کم تھی اور پٹاخے مارتی بھڑکتی زیادہ تھی۔۔ اُس کی بھڑک اور جلت کی آنکھوں کو عادت ہوئی تو میں نے وقت گزاری کی خاطر کتابوں کے شیلف کی جانب رجوع کیا ۔۔ اور جیسے دیوانِ حافظ سے فال نکالتے ہیں ایسے میں نے شیلف میں سجی دُھول جمع کرتی کتابوں میں سے کسی ایک کو فال کے طور پر نکالا اور اسے جھاڑا پونچھا، اس کے سرورق کو ہتھیلی سے صاف کیا تو قرعہ امریکی شاعر والٹ وہٹ مین کے شعری مجموعے ” لیوز آف گراس“ کے نام نکلا جسے میں نے آج سے تقریباً تیس برس پیشتر محض اس کے عنوان کے سحر میں مبتلا ہو کر خریدا تھا۔ اس کے پہلے صفحے پر اپنا نام اور تاریخ درج کر کے بک شیلف میں رکھ کر بھول گیا تھا ۔میری طرح اس کے ورق بھی عمر رسیدگی کے باعث بھورے اور بے جان ہو رہے تھے ۔۔ جیسے مٹی میں لوٹ پوٹ ہو کر آنے والے بچے کو اگر آپ سرزنش کرتے ہیں تو اُسے ایک پیار بھری تھپکی بھی دیتے ہیں تو اس کے کپڑوں میں دھول کے چند ذرے بھی بلند ہوتے ہیں ۔
1855ءمیں پہلی بار شائع ہونے والا یہ مجموعہ بھی مٹی میں اٹا ہوا ایک بچہ تھا جسے میں نے بائیں ہاتھ میں تھام کر دائیں ہتھیلی سے تھپکا تو اس کے بھورے ہوتے قدرت کی مہک میں مہکتے وجود میں سے بھی ذرا سی دھول اٹھی۔۔ میری عادت ہے کہ جب کبھی میں کوئی شعری مجموعہ اپنی ہتھیلیوں کی رحل پر رکھ کر کھولتا ہوں تو آغاز اولین نظم یا غزل سے کرتا ہوں ”نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا“ ازاں بعد قسمت کا حال بتانے والے طوطے کی مانند کسی بھی ورق کو اپنی چونچ سے اٹھا لیتا ہوں۔۔ جہاں کہیں نظر ٹھہرتی ہے وہاں سرسری نظر کرتا ہوں اور پھر اگر اس شاعر کی صناعی ، غنایت، تراکیب ، انوکھاپن اور وہ کہ ”میں نے جانا گویا یہ میرے دل میں ہے“ میرے دل پر اثر کرتا ہے تو پھر میں اسے اول تا آخر پڑھتا ہوں ۔۔ والٹ مین کو میں نے جا بہ جا دیکھا ، جہاں دیکھا دل میں جا کرتے دیکھا۔۔ اس کی شوخیء تحریر کا پہلا نقش کچھ یوں فریادی ہوا۔
یکدم اپنی غنودہ اور باسی گھپا میں ۔۔
غلاموں کی گھپا میں۔۔
بجلی کے کوندے کی مانند یورپ نے ایک جست بھری
خود بھی ٹھٹک گیا۔۔
اُس کے پاﺅں راکھ میں تھے چیتھڑوں میں الجھے ہوئے تھے۔۔
اور اُس کے ہاتھ بادشاہوں کی گردنیں گھونٹتے تھے۔۔
یہ نظم میرے مزاج کی نہ تھی پرائے لوگو اور پرائی سر زمینوں کے قصے تھے ، میں بے اثر رہا۔۔
میں نے ”لیوز آف گراس“ کی جلد کو بند کر دیا ۔ بوسیدگی کی دھول میں اٹے اس بچے کی پشت پر ایک اور تھپکی دی ۔ پہلے کی نسبت دھول کے ذروں کے نابینا جگنو کم تعداد میں اٹھے۔۔ اسے دوبارہ کھولا تو وہاں ایک نظم تھی جس کی شدت اور جذبے کی مشرقیت نے مجھے اپنے پاس ٹھہرا لیا ۔۔
تم آج کے دن اور رات میرے ہاں ٹھہر جاﺅ تو۔۔
تم تمام نغموں کے آغاز کی مالک بن جاﺅ گی۔۔
اس دنیا اور سورج میں جتنی بھی خوبصورتی ہے۔۔
تم اس کی مالک بن جاﺅ گی۔۔
اور ابھی تو لاکھوں سورج باقی ہیں۔۔
اگر تم آج کے دن اور رات میرے پاس ٹھہر جاﺅ ۔۔۔
میں اس نظم کے گھر میں ہمیشہ کے لیے ٹھہر جاتا لیکن ایک اور نظم نے مجھے بے گھر کردیا۔
جب سے حضرتِ انسان نے ۔۔ یہ شعور، ارتقا کی منازل طے کرتے بالآخر حاصل کیا کہ زندگی صرف شکار ، عورت اور بچے نہیں ہے تب سے اس نے گھوڑے کو اپنا محبوب ٹھہرایا ۔۔ غاروں میں روپوش ہو کر اس کی شبیہیں پتھروں پر نقش کیں۔
کبھی چین کے کنفیوشس کے زمانوں کے گھوڑے گھپاﺅں میں تصویر کیے۔ اور کبھی بہزاد کی مصوّری میں متحرک نظر آئے۔ غرض کہ کوئی ایسا تمدن نہیں ہے جس میں گھوڑے کے نقش نمایاں نہ ہوئے ہوں۔ آج کے زمانوں میں ایم۔ایف حسین اور سعید اختر نے بھی گھوڑوں کو ہی اپنا محبوب مان کر ان کی تصویر کشی کی۔۔ حسین کے مہا بھارت کے یدھ کے گھوڑے اور سعید اختر کا اپنے سوار کے بغیر خوف آلود، گہرے الم میں سر جھکائے کربلا کے میدان میں کھڑا گھوڑا اور وہ براق جو وہاں تک گیا جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے تھے پر اس کے پر نہ جلے کہ اس کا سوار بھی تو وہ تھا جس کے لیے وہ عرش اور جہاں تخلیق کیے گئے تھے ۔۔
نہ صرف مصوّروں نے بلکہ شاعروں نے بھی خاص طور پر زمانہ¿ جاہلیت کے عرب شاعروں نے بھی گھوڑوں کی شان میں قصیدے لکھے۔۔
والٹ وہٹ مین نے بھی اس جانور کے عشق میں مبتلا ہو کر ایک شاندار نظم لکھی ۔۔
”ایک شاندار حُسن والا گھوڑا۔۔
اَن چھوا اور میرے لمس کا جواب دینے والا۔۔
سر بلند ماتھے اور کنوتیوں کے درمیان فاصلہ۔۔
اعضاہوئے اور نازک۔۔
دُم زین پر دھول اُڑاتی ہوئی۔۔
آنکھوں میں چمکتی ہوئی شرارت۔۔
کان متحرک اور نفاست سے تراشے ہوئے۔۔
ایک شاندار حُسن والا گھوڑا۔۔
نیویارک کے نواح میں واقع ایک لمبے جزیرے نیمر لونگ آئے لینڈ میں ، میں نے کچھ دن بسر کئے تھے ۔ ایک شب جب میرے ایک برف سفید بالوں اور دل پذیرچہرے والے خوش شباہت دوست مجھے میری رہائشگاہ سے اٹھا کر لونگ آئے لینڈ کے کناروں پر سمندر کی گود میں ہمکتے اپنے گھر لے جا رہے تھے اور وہ شاہراہ دیوزاد، منحنی ، نئی نویلی خوش بدن یا بھدی ، تازہ ترین ماڈلز کی یا برسوں کی آزردگی میں مبتلا کاروں کے نرغے میں اتنی آئی ہوئی تھی کہ سانس بھی نہ لے سکتی تھی جب میں نے بائیں جانب ہائی وے سے جدا ہوتی ایک ذیلی سڑک کے کناروں پر ایستادہ ایک سنگ میل دیکھا۔ بس ایک نظر دیکھا کہ دوسری نظر تک وہ اوجھل ہو چکا تھا پر میں نے یہ دیکھ لیا کہ اس پر ”والٹ وہٹ مین اسٹریٹ“ درج تھا۔
تب میں اس شاعر کے مرتبے اور معجزے سے آگاہ نہ تھا ورنہ میں فوراً اپنے برف سفید بالوں اور دل پذیر چہرے والے خوش شباہت دوست سے فریاد کرتا کہ رک جاﺅ۔۔ پلیز رک جاﺅ۔۔ اس گھر کے ایک مکان میں وہ شاعر پیدا ہوا تھا جس نے ایک ایسی نظم لکھ دی تھی جس کی پاداش میں مَیں آج تک منہ چھپائے پھرتا ہوں۔
بیوی سے آنکھیں چراتا ہوں۔۔
بچے سامنے آتے ہیں تو۔۔
بس یہی تھا جس نے میرا راز افشا کر دیا۔
لیکن تب میں آگاہ نہ تھا ۔ زمانہء جاہلیت میں سانس لیتا تھا ورنہ وہ میری درخواست پر نہ رکتا تو میں زبردستی اسے روک دیتا ۔۔ رک جاﺅ ۔
آس پاس کے گھروں میں کہیں کہیں ایک آدھ بلب ذرا مدھم مدھم روشن تھے کہ ان کے یو۔پی ایس بہتر ساخت کے تھے اور بجلی منقطع ہونے پر وہ میری طرح گھپ اندھیرے میں نہیں چلے جاتے تھے جب کہ میرے کچن کے سنک کے نیچے دھرا میرا یوپی ایس کچھ روز پہلے ٹھس ہو گیا تھا ۔ میں نے ذرا کنجوسی کی تھی ، اپنے محدود مالی وسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک چرب زبان الیکڑیشن کی باتوں میں آ کر ایک سیکنڈ ہینڈ یوپی ایس لگوا کر بچت کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ ۔۔ یکدم دم توڑ گیا تھا ۔۔ اس لیے میں گھپ اندھیرے میں چلا جاتا تھا۔
البتہ میں اپنے ہمسایوں پر اس لیے سبقت رکھتا تھا کہ ان کے خیال میں ایک یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بجلی آجائے گی اور وہ منتظر تھے جب کہ میں نہ تھا ۔ صرف میں کشف رکھتا تھا کہ چار گھنٹے اور ساڑھے بائیس منٹ بعد ۔۔۔ اس صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے میں نے میز پر پہلو بہ پہلو چار شولنگ شکل کی موٹی موم بتیاں ایستادہ کر رکھی تھیں ان میں سے پہلی کب کی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی تھی اور دوسری کی دراز قامتی لمحہ بہ لمحہ مختصر ہوتی چلی جاتی تھی اور اس کے پاﺅں کے گرد گرم موم ٹھنڈی ہو کر بوندوں کی شکل اختیار کر رہی تھی ۔۔ مجھے ابھی پورے دو گھنٹے انتظار کرنا تھا۔ پچھلے دو گھنٹے اور ساڑھے بائیس منٹ میں نے ”لیوز آف گراس“ کے ورق الٹتے اور وہٹ مین کی نظمیں بہ مشکل پڑھتے گزار دیے تھے کہ موم بتی کی روشنی جھلملاتی ہے اور نظموں کے حرف بھی اسی طور جھلملاتے لرزتے ہیں۔
اُس شب مجھ پر ایک عجیب بھید کھلا۔۔
کسی بھی شعری مجموعے کو اگر بجلی کی روشنی میں پڑھا جائے تواُس میں درج شعر بہت عیاں اور برہنہ ہوتے ہیں۔ اوراگر اس مجموعے کو موم بتی کی جھلملاہٹ میں پڑھا جائے ۔۔۔ بے شک یہ جھل مل آنکھوں کے لیے مُضر ثابت ہوتی ہے لیکن یقین کیجئے موم بتی کی مدھم لرزتی روشنی میں شعروں کے نہ صرف مفہوم بدل جاتے ہیں بلکہ ان کی اثر انگیزی آپ کے پورے وجود سے ایک آکاس بیل کی مانند لپٹ کر آپ کو اپنا اسیر کر لیتی ہے ۔۔
جب میں نے اُس گھٹا ٹوپ تاریکی سے نپٹنے کی خاطر چار موٹی موم بتیاں پہلو بہ پہلو رکھی تھیں تو ان کی ایستادگی پر فحاشی کا الزام دھرا جا سکتا تھا ۔۔ اگر یہ اس حالت میں کسی مندر میں دھری ہوتیں داسیاں شِو مہاراج کے سامنے سرنگوں ہو کر ان کے گردگیندے کے پھول سجاتیں اور ان سے بہر مند ہونے کی آرزو کرتیں۔۔
جب دوسری موم بتی بھی بابل کے ایک مینار کی مانند مسمار ہوتی مختصر ہوتی اپنی آخری بھڑک پر آئی تو میں نے تیسری موم بتی کو جلا دیا۔
تب اس موم بتی کی ابتدائی تھرتھراتی روشنی میں ورق پلٹتے میرے سامنے وہٹ مین کی وہ نظم ایک پنجرے سے آزاد ہوتے ہوئے پرندے کی مانند یکدم تھرتھرائی۔
جس نے میرا راز افشا کر دیاتھا۔۔
مجھے آنکھیں چرانے پر مجبور کر دیا تھا۔۔
مجھے کہیں کا نہ رکھا تھا۔۔بدنا م کر دیا تھا۔۔
میں سناٹے میں آگیا تھا کہ و ہٹ مین کیسے میرے دل کے نہاں خانوں میں اتر گیا اور وہاں جو بھید تھا اسے اپنی نظم میں فاش کر دیا۔ میں نے اس لمحے وہٹ مین سے شدید نفرت کی کہ اس نے یہ نظم کہہ کر میری ہموار اور پر سکون حیات کو اتھل پتھل کر دیا تھا۔۔
٬٬ میں ایک مرتبہ ایک پُر ہجوم شہر میں سے گزرا تھا۔۔
اپنی یاد داشت پر نقش کرتا اس کا طرزِ تعمیر ، رسوم ، روایات اور محفلیں۔۔
تاکہ۔۔ مستقبل میں ان کا حوالہ دے سکوں اس لیے نقش کرتا۔۔
لیکن اب ۔۔ اس شہر کی یادداشت میں اور کچھ باقی نہیں ہے۔۔
سوائے ایک عورت کے۔۔
ایک عورت۔۔ جو مجھے اس شہر میں سرِراہ ملی تھی اور ۔۔
اس نے مجھے روک لیا تھا۔۔
کیوں کہ وہ مجھ سے محبت کرتی تھی۔۔
ہر دن جو دن تھا اور ہر رات جو رات تھی۔۔
ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔۔
اس کے سوا تو میں سب کچھ ایک عرصے سے بھول چکا ہوں۔۔
مجھے صرف وہ عورت یاد ہے جو۔۔
جذبے کی شدت سے مجھ سے لپٹ جایا کرتی تھی۔۔
پھر ہم آوارہ پھرتے تھے۔۔
محبت کرتے تھے۔۔
اور پھر جدا ہو جاتے تھے۔۔
وہ میرا بازو تھام لیتی تھی ، تم نے اس شہر سے نہیں جانا۔۔
میں آج بھی اس کی قربت محسوس کر تا ہوں۔۔
خاموش ہونٹ جو اداسی میں لرزاں تھے، ان کی قربت محسوس کرتا ہوں۔۔
میں ایک مرتبہ ایک پُرہجوم شہر میں سے گزرا تھا،،
میں رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا ۔
یہ راز تو صرف میرے اور اس ایک عورت کے درمیان برسوں سے پناہ گزیں اور پوشیدہ تھا۔۔ وہ والٹ وہٹ مین کمبخت اپنے لونگ آئے لینڈ کے گھر میں مقیم کیسے میرے اس دور افتادہ مشرقی شہر تک آپہنچا جب کہ نام سے بھی وہ غالباً آگاہ نہ تھا اور یہاں بستے لاکھوں لوگوں میں سے صرف مجھ تک پہنچا اور میری ادھیڑ عمر حیات کے پوشیدہ رازوں کے بخیے ادھیڑ دیے ۔۔ وہ کیسے لونگ آئے لینڈ کے گھر میں کسی شب یہ نظم لکھتے ہوئے یہ جان گیا کہ واقعی میں ایک مرتبہ ایک پُر ہجوم شہر میں سے گزرا تھااور وہاں مجھے سرِراہ ایک عورت ملی تھی جو جذبے کی شدت سے مجھ سے لپٹ جایا کرتی تھی اور پھر ہم آوارہ پھرتے تھے ، محبت کرتے تھے اور پھر جدا ہو جاتے تھے ۔ اور کیا وہ ہمارے آس پاس کہیں موجود تھاجب اس نے میرا بازو تھا م کر کہا تھا کہ تم نے اس شہر سے نہیں جانا۔ ایک مخبر کی مانند موجود تھا۔۔
جب میں اس نظم کے آخری مصرعے تک پہنچا ، خوفزدہ اور اس سے نفرت کرتا کہ اس نے مجھے برہنہ کر دیا تھا ، تب یکدم ہر سو چکا چوند ہو گئی ۔ ٹیلی ویژن زندہ ہو گیا ۔ فریزر غرا اٹھا اور مائکرو ویو کے تاریکی میں بجھ چکے ہندسے روشن ہوگئے اس چکا چوند نے میرے جرم کو بھی ننگا کر دیا۔۔
مجھے ہوتا لیکن زیادہ ملال نہ ہوتا اگر برسوں پیشترجب میں اس عورت سے ایک پُر ہجوم شہر میں ملا تھا تب میرا یہ پوشیدہ راز ظاہر ہو جاتا لیکن اب ۔۔ اتنی مدت بعد۔۔ میں ایک ادھیڑ عمر، مطمٰین حیات بسر کرتا پانچ وقت باقاعدگی سے سجدہ ریز ہوتا اپنے کردہ اور نا کردہ گناہوں کی پشیمانی میں مسجد کے قالین کو اپنے آنسوﺅں سے گیلا کرتا تھا۔ زندگی میں ایک ایسی بے جان ہموارگی تھی جس کی سطح پر ایک لہر بھی نہ اٹھتی تھی ۔ تو ان برسوں میں ، نامرادآسودگی کی مردہ دلی کے ایام میں یہ وہٹ مین تھا جس نے میری منظم اور معزز حیات کے تانے بانے بکھیر دیے تھے ۔ اس سے بڑھ کر کمینگی بھلا اور کیا ہوگی۔۔
میں بہت دن خجل سا، شرمندہ، ہر ایک سے آنکھیںچراتا بارش میں بھیگ جانے والے ایک پلّے کی مانند کونوں کھدروں میں چھپتا پھرا۔۔ اس شاعر کو دل ہی دل میں بُرا بھلا کہتا رہا۔ میں تو اپنی آخرت سنوارنے کی فکر میں تھا اور اس نے میری شرافت کا پردہ چاک کر دیا تھا۔
بہت دن بیت گئے۔
اس دوران میں نظریں جھکائے۔۔ کسی سے آنکھیں ملائے بغیر گھر میں گردش کرتا رہا۔ ایک شرمندہ بلّی کی مانند جس نے گھریلو کبوتر ہڑپ کر لیا ہو۔۔
بہت روز گزر گئے ۔
اور ایک روز جب جھکے جھکے میری پلکیں تھک گئیں تو جھجھکتے ہوئے میں نے انھیں اٹھا کے ایک دزدیدہ نگاہ آس پاس کی ۔۔ اور میں اپنی آنکھوں پر یقین نہ کر سکا۔۔ کہ نہ تو میری بیوی کے چہرے پر شک و شبہے کی مکڑی نے کچھ جالے بُنے تھے وہ معمول کے مطابق میرے پاس سے گزرتی ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ گزرتی تھی اور نہ ہی میرے بچوں نے مجھ سے کچھ بے التفاتی کی۔۔ وہ حسبِ معمول فرمانبرداری کا فرض ادا کرتے مودّب ہوتے تھے ۔
زندگی کے معمولات میں کچھ فرق نہ آیا تھا۔
میرے ہاتھ پر کوئی رنگ نہ تھا ۔۔ اگر نہیں تھا تو میں رنگے ہاتھوں نہیں پکڑا گیا تھا۔۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ہر گز آگاہ نہیں کہ میں ایک مرتبہ ایک پُر ہجوم شہر میں سے گزرا تھا جہاں ایک عورت مجھے سرِراہ ملی تھی اور وہ جذبے کی شدت سے مجھ سے لپٹ جایا کرتی تھی ، ہم آوارہ پھر تے تھے ، محبت کرتے تھے ۔۔ وہ جانتے ہی نہیں ۔۔لیکن وہ کیوں نہیں جانتے ، کیوں آگاہ نہیں۔۔ انھیں جاننا چاہیے ، آگاہ ہونا چاہیے کہ میں ایک مرتبہ ایک پُرہجوم شہر میں سے گزرا تھا جہاں ایک عورت مجھ سے محبت کرتی تھی مجھ سے لپٹ جایا کرتی تھی اور میں آج بھی ان خاموش اداسی میں لرزاں ہونٹوں کی قربت محسوس کرتا ہوں ۔۔ انھیں جاننا چاہیے ۔۔
میں چاہتا تھا کہ وہ آگاہ ہوں اور وہ نہیں تھے ۔۔ نہ میری بیوی نے مجھ پر کچھ شک کیا اور نہ ہی بچوں کو اپنے باپ کے کردار پر خفت محسوس ہوئی ۔۔ زندگی نارمل تھی ۔۔
مایوسی کے ہزارپائے نے مجھے جکڑ لیا ۔۔ میں بے توقیر اور بے عزت ہو گیا تھا۔۔ میری مردانگی کو ایک شدید دھچکا پہنچا تھا کہ میں خواہش کرتا تھا کہ وہ جان جائیں اور وہ نہیں جانتے تھے اور جانتے بھی کیسے کہ اُس عورت کا وجود ہی نہ تھا۔
یہ سب میرے ارمان ، میرے گمان اور واہمے تھے ، سارے کے سارے میرے تواہم اور خدشے تھے ۔
اُس عورت کا وجود نہیں ہوتا۔۔
ہر شخص جب ادھیڑ عمری کی دہلیز پر پہنچتا ہے ، حیات کے کھٹن راستوں کی مسافت سے نڈھال اور پژمردہ ہوتا ہے تو دشواریوں اور صعوبتوں کو سہنے کی خاطر اپنے خواب و خیال میں اُس عورت کو تخلیق کر لیتا ہے جو کبھی اس پُر ہجوم شہر میں سے گزرتے ہوئے ملی تھی ،
جس نے اسے روک لیا تھا ، اس سے ٹوٹ کر محبت کی تھی ، جذبے کی شدت سے اس سے لپٹ جایا کرتی تھی۔
ہر شخص کو زندگی کی ناتمام حسرتوں اور کھٹنائیوں کے دوران محبت نہ ہارنے کے لیے ، بقیہ دن گزارنے کے لیے ایک تصوراتی عورت کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اور بچے اسے بیکار اور ناکارہ شے کے طور کسی حد تک ترک نہ کردیں اس لیے وہ خواہش کرتا ہے کہ وہ اس کے تصور کو حقیقت جان کر اسے مطعون کریں اس پر شک کریں بیکار اور ناکارہ سمجھ کر ڈسٹ بن میں نہ پھینک دیں۔
نہ تو اُس عورت کا وجود ہوتا ہے اور نہ ہی کہیں وہ شہر ہوتا ہے جہاں وہ تم سے سرِراہ ملی تھی۔ سب سراب، خواب و خیال۔ محض اپنی ادھیڑ عمری میں متروک نہ ہوجانے کے خوف سے تخلیق کردہ۔
بے شک وہ عورت نہ تم سے ملی، نہ تم اُس سے ملے، نہ تم اُس کے ساتھ آوارہ پھرے اور نہ اُس نے تم سے محبت کی۔۔ اس کے باوجود تم اُس کی قربت زندگی کے آخری لمحوں تک محسوس کرتے ہو۔۔
اپنے مرجھائے ہوئے ہونٹوں پر اس کے اداس اور لرزیدہ ہونٹوں کا لمس محسوس کرتے رہتے ہو۔۔
میں ایک مرتبہ ایک پُر ہجوم شہر میں سے گزرا تھا۔
مستنصر حسین تارڑ