جشن میلادِ النبیﷺ:نئے معاہدے کی ضرورت!
عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم
جشن میلادِ النبی ﷺ:نئے معاہدے کی ضرورت!
دُنیا کی تمام اقوام اور مذاہب کو ماننے والے اپنے‘ قومی دِن‘ اہم اَیام اور تہوارپُورے جوش و جذبہ سے مناتے ہیں جس سے اُن کی قومی وحدت‘ اپنے نظریہ سے لگن اور اُس کے ساتھ اپنی وابستگی کا بھر پور اظہارہوتا ہے۔ اس طرح کی تقریبات ایک طرح سے اُن کے ملی اور قومی جذبہ کا مظہر ہوتی ہیں۔
ماہ ربیع الاول ہم پر سایہ فگن ہے‘اسلامی ہجری کیلنڈر کے مطابق یہ سال کا تیسرا مہینہ ہے؛ جس کے ایک معنی عربی زبان میں ”بہار”کے آتے ہیں‘یہ مہینہ نبی پاکﷺکی ولادت باسعادت کی مناسبت سے نہ صرف اُمت مسلمہ؛بلکہ بنی نوع انسان اور اس سے بڑھ کر تمام مخلوقات وجہانوں کے لیے موسمِ بہار اور فصلِ گل کی حیثیت رکھتاہے؛ ا س لیے اِسے ربیع کا مہینہ کہاجاتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ نبی پاکﷺکی بعثت جہالت کے ظلمت کدے میں روشنی کی بہار ہے‘افراط و تفریط کے زہرناک ماحول میں اعتدال و توازن کی بہار ہے‘انتشار و خلفشار کے عہدنامسعود میں وحدت و یک جہتی کی بہار ہے اور ظلم و عدوان کی خونیں سرزمین پر امن و انصاف کی بہار ہے۔کہنے والے نے سچ کہاہے؎حضور(ﷺ) آئے تو سرِّآفرینش پاگئی دُنیا‘اندھیروں سے نکل کر روشنی میں آگئی دُنیا‘سُتے چہروں سے زنگ اترا‘بجھے چہروں پہ نورآیا‘حضور(ﷺ)آئے تو انسانوں کو جینے کا شعور آیا۔
کائناتِ ہست و بود کو ہمیشہ تاریخ کے اِن مقدس لمحات پر ناز رہے گاجو بارہ‘ربیع الاوّل کی صبح ِسعادت کے دَامن میں سمٹ آئے اور اِن مقدس لمحات نے یہ تاریخ ِانسانی میں دیگر تمام اِیام سے ایسا جدا اور ممتاز کردِیا کہ اَب اِس دِن کے بعد قیامت تک کوئی بھی دِن اِس دِن سے زیادہ معزز،مکرّم،افضل اور مقدس نہیں ہو سکتا۔کیونکہ یہ مقدس دِن ”وجہ وجود ِکائنات“ کے عالمِ دُنیا میں ظہور کا دِن ہے۔اس دِن کے انتظار میں گردش شام و سحر نے ماہ و سال کی لاکھوں کروٹیں بدلی تھیں۔اِس دِن فضائے عالم مسرتوں کے دلآویز نغموں سے گونج اٹھی اور اِس صبح نور کے پاکیزہ اُجالے نے شمس و قمر کو روشی اور ستاروں کو ضو فشانی بخشی۔اِس دِن کی صبح انقلاب کی اثر آفرینی نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔وہ تاریخ جس کا ورق ورق درماندگی اور انسان دشمنی کی گواہی دے رہا تھا۔وہ تاریخ جس کا دامن ظلم و بربریت سے تار تار تھا۔
وہ تاریخ جس میں قیصر و کسریٰ کا جبر و استبداد لوگوں کا مقدر بن چکا تھا۔لیکن ظہورِ قدسی کے اِن مبارک لمحات نے تہذیب انسانی کو وقار‘ثقافت کو تقدس‘علم کو وسعت‘فکر کو ندرت‘عمل کو طہارت اور جذبوں کو پاکیزگی بخشی اورنفرتوں اور عداوتوں کے خار زار لامتناہی صحرا میں محبت و اُخوت اورمروت و خلوص کے گلستان آباد کئے۔یہی وہ دِن جس کیلئے قدرت نے شعور انسانی کو تمام ارتقائی منازل سے گزار کر بلوغت کے اُس مقام پر پہنچادیا تھا جہاں اَب اُسے ہدایت و رہنمائی کیلئے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم جیسی نمونہ کما ل اور جامع الصّفات ہستی کی شدت سے ضرورت تھی۔
یہ دِن صداقتوں کا امین اور سعادتوں کا پیامبر ہے۔اِس دِن طلوع ہونے والے سورج کی روشنی نے انسانیت کو افراط و تفریط کی دلدل سے نکال کر توازن و اعتدال کی راہ پر گامزن کردیا۔اِس دِن نے تمام نسلی‘لسانی‘طبقاتی اور جغرافیائی بتوں کو توڑ کر صفحہ ہستی پر ایک ایسے خدائی نظام کو جنم دِیا جس نے روئے زمین پر اَمن و محبت‘اتحاد و یگانگت کی فضا قائم کرکے تمام جھوٹے باطل امتیازات کا خاتمہ کردیا اور بھٹکی ہوئی مخلوق کو خالق حقیقی کی دہلیز پر لاکر سجدہ ریز کردیا۔
یومِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم نجات ہے شرک سے‘جہالت سے‘ظلم سے‘غلامی کی زنجیروں سے‘شیطان اور طاغوت کے ہتھکنڈوں سے اور جھوٹے خداؤں کی خدائی سے‘یوم میلاد دراصل اُس انقلاب کی صبحِ نو کی نوید ہے جس نے انسانیت کے دامن سے ظلم و درندگی کے بدنما دھبوں کوصاف کرکے اُسے رحمت و رافت کے خوشبودار اورصدا بہار پھولوں سے بھر دِیا اوراِس انقلاب نے عرب کے صحرا نوردوں کو خضرِ راہ بنادیا۔چرواہوں کو قافلہ سالاری عطا ء کی اور غلاموں کو وہ ہمت و حوصلہ اور مرتبہ و مقام دیا کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ سیّدنا بلال کہلائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے یتیموں‘بے کسوں اور مفلسوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوئے جس کے حقدار اِس انقلاب سے قبل صاحب ِجاہ و حشمت و ثروت ہوا کرتے تھے۔ گویایومِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عظمت انسانی کا محافظ و پاسباں قرار پایاجس کی بدولت انسانیت کو عظمت و شرف کی معراج عطا ہوئی۔میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم دراصل پوری کائنات کیلئے ربّ کائنات کے اُس نظام کا اجراء ہے جس کی حکمرانی تما م قومی‘لسانی اور جغرافیائی بتوں کو پامال کرکے برابری کے حقوق عطا کرتی ہے۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم خالق کائنات کا وہ آخری ورلڈ آرڈر ہے جس کے بعد دُنیاکو کسی نئے ورلڈ آرڈر کی ضرورت نہیں رہتی۔لاکھوں درود و سلام اُس ذات اقدس پر جس کے سر انور پر ربّ کائنات نے خاتم ُ النبین‘رحمتہ ُاللعالمین اور سیّد المرسلٰین صلی اللہ علیہ وسلم کا تاج سجا کر پوری کائنات کیلئے ہدایت و رہنمائی کا سر چشمہ بنادیا۔ابتدائے آفرنیش سے لے کر تا قیامت اور مابعد قیامت جس کو جو کچھ بھی ملا یا ملے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضانِ کرم کا تصدق ہے۔ کائنات میں پھیلی ہوئی ہر چیز کا وجود اور اِن اشیاء میں موجود رنگ و نور اور حسن و رعنائی کا ظہور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی وجود کی برکت ہے۔آج ہم قومی اور بین الاقوامی سطح تک مایوسی و بے بسی اور اپنے مقصد سے عدم آشنائی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔باطل طاغوتی اور سامراجی طاقتیں اِسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔
کشمیر‘فلسطین‘عراق‘افغانستان‘بوسنییا‘چیجینیا‘مراکش،الجزائر اوربرماسے اُٹھتے ہوئے دھوئیں کے بادل اُمتِ مسلمہ کیلئے لمحہ فکریہ بنے ہوئے ہیں۔مسلمانوں کے خون سے زمین کا دامن سرخ ہورہا ہے اوروقت کے چنگیز و ہلاکو انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کررہے ہیں۔ہم انفرادی‘ قومی اور بین الاقوامی زندگی میں ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت پیدا کرکے مقصد بعثت نبوی کو سمجھنے کی کوشش کریں گے اوردین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو غالب کردینے کیلئے”انقلاب نظام ِ مصطفی“ کا راستہ اختیار کریں گے۔
دُنیا کی باطل قوتیں متحد ہورہی ہیں۔اُن کے صدیوں کے باہمی اختلافات ختم ہو رہے ہیں اور وہ اپنے انفرادی مفادات پر اپنے قومی مفادات کوترجیح دیتے ہوئے عالم اسلام کے گردگھیرا تنگ کررہے ہیں۔دوسری طرف ہم ایک خدا‘ایک رسولﷺ‘ایک دین اور ایک کعبہ کو ماننے والے باہم منتشر اور متفرق ایک بکھرے ہوئے ریوڑ کی طرح خونخوار بھیڑیوں کی زد میں ہیں۔منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک‘ایک ہی سب کا نبی‘ دین بھی‘ ایمان بھی ایک‘حرَمِ پاک بھی‘ اللہ بھی‘ قُرآن بھی ایک‘کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک‘ سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اُمت اپنے محسن آقا پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہونے کے بجائے اغیار کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے۔
آج ملت ِ اسلامیہ کو درپیش داخلی،خارجی‘نظریاتی اور جغرافیائی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے عملی وابستگی اختیار کرنا ہوگی۔اپنے اسلاف کے طریقوں کو اپنانا ہوگا۔باہم متحدو منظم ہوکر تمام استحصالی قوتوں کے خلاف سینہ سپر ہونا ہوگا اور اپنی عظمت رفتہ کے حصول کیلئے مصائب و آلام اور قربانیوں کی تاریخ دہرا کر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وطن عزیز پاکستان پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقی تعلیمات سے اپنے ظاہرو باطن کو انقلاب آشنا کریں۔ آپﷺ کے آخری خطبہ کودُنیا کے سامنے پیش کریں جو کہ حقوقِ انسانی کا عالمی چارٹرہے۔ ہمیں عمل سے یہ بتانا ہو گا کہ حضورﷺ نے غیر مسلموں، عورتوں، بچوں، زیر دستوں، جنگی قیدیوں اور جانوروں کے حقوق کا جوچارٹردیا تھا اُسی سے روشنی لیکراقوامِ متحدہ نے اپنا دستور بنائے بغیر کوئی امن کا راستہ نہیں۔ اِس سے دُنیا کو حضورﷺ کی شخصیت اور اسلام کی اصل تعلیمات سے آگاہی ہوگی۔اور ہمیں اس ماہ مقدسہ کے نسبت سے جملہ اختلافات کو بالاطاق رکھتے ہوئے ایک اُمت ہونے کا نیا معاہدہ کرنا ہو گا۔
عابد ہاشمی