صنف لاغر
سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم صحیح اندازہ کاٹنے اورسونگھنے کے بعد ہوتاہے اور اگر مارگزیدہ مرجائے تو سانپ کی قسم کاپتہ چلانابھی چنداں دشوارنہیں۔ لیکن آخر الذکر خالص مشک کی طرح، اپنی قسم کا خود اعلان کر دیتی ہیں۔ ایک بزرگوار، جنہوں نے اپنی عمر اور کمائی ریس کورس اور ’’طواف کوئے ملامت‘‘ میں گنوائی ہے، اکثر کہا کرتے ہیں کہ گھوڑے اور عورت کی ذات کا اندازہ اس کی لات اوربات سے کیا جاتاہے۔ لیکن اس قسم کے مقولوں کی حیثیت ہارے ہوئے جواری کی لفظی پھلجھڑیوں سے زیادہ نہیں جو فضا کو روشن کریں یا نہ کریں، آنکھوں میں کچھ دیرکیلئے ضرور چکا چوند پیدا کر دیتی ہیں۔ پھر اس کے بعد تاریکی کچھ اور زیادہ تاریک معلوم ہوتی ہے۔ گھوڑے اور سانپ کے خصائل کی تصدیق یا تردید کا حق ویسے تو سلوتریوں اور سپیروں کوپہنچتا ہے یا پھر ان حضرات کو جو ڈسے جا چکے ہیں یا دلتی کا ذاتی تجربہ رکھتے ہیں۔ لیکن ہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ ثمرممنوعہ اگر سانپ کے پھن پر بھی رکھا ہوتا تو وہاں بھی آدم کےحریص ہونٹ بے دھڑک اسے چوم لیتے۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات قسموں کی ہورہی تھی اورہم کہنا یہ چاہتے تھے کہ آجکل عورتوں کو دوقسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جوموٹی ہیں، دوسرے وہ جو دبلی نہیں ہیں۔ آپ کہیں گے،’’آخر ان دونوں میں فرق کیا ہوا؟ یہ تو وہی الف دو زبراً اور الف نون زبران والی بات ہوئی۔‘‘ مگر آپ یقین جانئے کہ دونوں قسموں میں دبلے ہونے کی خواہش کے علاوہ اور کوئی بات مشترک نہیں۔ ان کے حدود اربعہ، خط و خال اور نقوش جدا جدا ہیں اور اس میں کاتب تقدیر کی کسی املا کی غلطی کا قطعاً کوئی شائبہ نہیں۔ اصل فرق یہ ہے کہ اول الذکر طبقہ (جو صحیح معنوں میں ایک فرقہ کی حیثیت رکھتا ہے) کھانے کے لئے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ دوسرا طبقہ زندہ رہنے کیلئے کھاتا ہے۔ پہلا طبقہ دوا کو بھی غذا سمجھ کر کھاتا ہے اور دوسراطبقہ غذا کو بقدر دوا استعمال کرتا ہے۔ ایک کھانے پر جان دیتا ہے اور دوسرا کھانے کو دوڑ تا ہے۔ وعلیٰ ہذاالقیاس۔ فرق باریک ضرور ہے، لیکن اگر آپ نے کبھی فن برائے فن، زندگی برائے فن، فن برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی وغیرہ بحث سنی ہے تو یہ فرق بخوبی سمجھ میں آجائے گا۔ اس مضمون میں روئے سخن دوسرے طبقہ سے ہے جو دبلانہیں ہے مگر ہونا چاہتا ہے۔
زمانہ قدیم میں ایران میں نسوانی حسن کا معیارچالیس صفات تھیں (اگر چہ ایک عورت میں ان کا یکجا ہوناہمیشہ نقض امن کا باعث ہوا) اور یہ مشہور ہے کہ شیریں ان میں سے انتالیس صفات رکھتی تھی۔ چالیسویں صفت کے بارے میں مورخین متفقہ طور پر خاموش ہیں۔ لہذا گمان غالب ہے کہ اس کاتعلق چال چلن سے ہوگا۔ اس زمانے میں ایک عورت میں عموماً ایک ہی صفت پائی جاتی تھی۔ اس لئے بعض بادشاہوں کو بدرجہ مجبوری اپنے حرم میں عورتوں کی تعداد بڑھانی پڑی۔ ہر زمانے میں یہ صفات زنانہ لباس کی طرح سکڑ تی، سمٹتی اورگھٹتی رہیں۔ بالآخر صفات تو غائب ہو گئیں، صرف ذات باقی رہ گئی۔ یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ ذات و صفات کی بحث سے قطع نظر یہی کیا کم ہے کہ عورت صرف عورت ہے۔ ورنہ وہ بھی رد ہو جاتی تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے۔
آج کل کھاتے پیتے گھرانوں میں دبلے ہونے کی خواہش ہی ایک ایسی صفت ہے جو سب خوبصورت لڑکیوں میں مشترک ہے۔ اس خواہش کی محرک دور جدید کی ایک جمالیاتی دریافت ہے، جس نے تندرستی کوایک مرض قرار دے کر بدصورتی اوربدہیئتی سے تعبیر کیا۔ مردوں کی اتنی بڑی اکثریت کو اس رائے سے اتفاق ہے کہ اس کی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے جہاں یرقان حسن کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو جائے اور جسم بیمار و تن لاغر حسن کامعیار بن جائیں، وہاں لڑکیاں اپنے تندرست و تواناجسم سے شرمانے اور بدن چرا کر چلنے لگیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یوںسمجھئے کہ حوا کی جیت کا راز آدم کی کمزوری میں نہیں بلکہ خود اس کی اپنی کمزوری میں مضمر ہے۔ اگر آپ کو یہ نچڑے ہوئے دھان پان بدن، ستے ہوئے چہرے اور سوکھی بانہیں پسندنہیں تو آپ یقیناً ڈاکٹر ہوں گے۔ ورنہ اہل نظر تو اب چہرے کی شادا بی کو ورم، فربہی کو جلندھر اور پنڈلی کے سڈول پن کو ’’فیل پا‘‘ گردانتے ہیں۔
آج پھر فرہاد کے ہاتھ میں تیشہ ہے، مگر یہ تیشہ محمود ہے! یا یوں کہیئے کہ جب سے بت شکن نے بت پرستی اور بت تراشی اختیار کی، حسن کا معیار ایسا بدلا کہ جب تک قدیم یونانی مجسموں کے پیچ و خم اورابھار کو رند ے لگاکر بلیرڈ کی میز کی طرح سپاٹ نہ کردیا جائے، وہ آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ اجنتا کی تصویریں اور مائیکل انجلو کے مجسمے بھی اسی سلوک یا بدسلوکی کے سزاوار ہیں ان میں بھی ا یک ایسے بھرپور بدن کے خطوط کو ابھارا گیا ہے جو اپنے آپ سے شرمندہ نہیں لیکن جس کی تاب مضمحل بازو اور تھکے ہوئے اعصاب نہیں لا سکتے۔ اس پر عہد مغلیہ کے مشہور شاعر بہاری کا یہ دوہا صادق آتا ہے،
اپنے انگ کے جان کے، یوون نرپت پروین
ستن، من، نین، نتمب کو بڑو ا جا پھا کین
یعنی اپنے روپ کا انگ جان کر جوانی کے ذہین بادشاہ نے سینہ، دل، آنکھوں اور کولہوں میں بڑا اضافہ کیا۔ دیکھاگیا ہے کہ جوانی کا ذہین بادشاہ بسا اوقات ان صنائع بدائع کے استعمال میں فیاضی سے کام لیتا ہے جسکے باعث جمال خود رو کی قطع و برید لازم آتی ہے۔ شکرہے کہ اب حسن خود کو بڑی حد تک ان حشوو زوائد سے پاک کر چکا ہے۔ اب عورت اقلیدس کے خط مستقیم کی مانند ہے جس میں طول ہے عرض نہیں۔
تا ہم بعض رجعت پسندوں کے نزدیک اب بھی مثالی اور متناسب جسم وہ ہے جس میں مندرجہ بالا چار عناصر میں سے پہلے اور چوتھے کا محیط برابر ہو اور کمر کا ناپ ان دونوں سے پندرہ سولہ انچ کم مثلاً 37۔21۔37 انچ۔ کسی ایکٹرس کے جسم کی اس سے بہتر کوئی تعریف نہیں ہوسکتی کہ اسے انگریزی کے 8 ہند سے سے تشبیہ دی جائے۔ یہ اور بات ہےکہ 24 سال کے سن میں جو خاتون 8 کا ہندسہ نظر آتی ہیں وہ 42سال کی عمر میں دو چشمی بن جائیں!
اگلے وقتوں کے لوگوں کے قویٰ بالعموم ان کے ضمیر سے زیادہ قوی ہوتے تھے۔ اس زمانے میں یہ عقیدہ عام تھا کہ دانا مرد، عورتوں کو ’’ گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔‘‘ صنف نازک کے باب میں ان کانظریہ کم وبیش وہی تھا جو مرزا غالب کا آم کے متعلق یعنی یہ کہ بہت ہوں! لیکن اب حال یہ ہے کہ جب تک اچھی طرح ناپ تول نہ کر لی جائے کسی کو اپنی آنکھوں پر اعتبارنہیں آتا۔ بدن کی ناپ تول کا حق پہلے صرف درزی اور گور کن کو حاصل تھا، مگر اب دنیا کی ہر خوبصورت عورت کا جغرافیہ جس میں وزن اور محرم کا سائز نمایاں ہیں معلومات عامہ کا جز بن گیا ہے اوربلاشبہ یہ وہ جزہے جو کل پر بھار ی ہے۔
وزن حسن کا دشمن ہے (یاد رکھیئے رائے کے علاوہ ہر وزنی چیز گھٹیا ہوتی ہے) اسی لئے ہر سمجھ دار عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی چربی کی دبیز تہوں کے خول کو سانپ کی کینچلی کی طرح اتار کراپنی عزیز سہیلیوں کو پہنا دے۔ عقد نا گہنانی کے بعد کہ جس سے کسی کو مفر نہیں، ہر لڑکی کا بیشتر وقت اپنے وزن اور شوہر سے جنگ کرنے میں گزرتا ہے۔ جہاں تک زن و شوہر کی جنگ کا تعلق ہے، ہم نہیں کہہ سکتے کہ شہید کون ہوتا ہے اور غازی کون لیکن زن اور وزن کی جنگ میں پلہ فریق اول ہی کابھاری رہتا ہے، اس لئے جیت فریق ثانی کی ہوتی ہے۔ مٹاپے میں ایک خرابی یہ ہے کہ تمام عمر کو گلے کا ہار ہو جاتا ہے اور بعض خواتین گھر کے اندیشوں اورہمسایوں کی خوش حالی سے بھی دبلی نہیں ہوتیں،
’’تن‘‘ کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
دراصل گرہستی زندگی کی آب و ہوا ہی ایسی معتدل ہے کہ مولسری کا پھول دو تین سال میں گوبھی کا پھول بن جائے تو عجب نہیں۔
مٹاپا عام ہویا نہ ہو، مگر دبلے ہونے کی خواہش جتنی عام ہے اتنی ہی شدید بھی۔ آئینے کی جگہ اب وزن کم کرنے کی مشین نے لے لی ہے۔ بعض نئی مشینیں تو ٹکٹ پر وزن کے ساتھ قسمت کا حال بھی بتاتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ عورتوں کی قسمت کے خانے میں صرف ان کا وزن لکھا ہوتا ہے۔ عورتوں کو وزن کم کرنے کی دواؤں سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ادھیڑ مردوں کو یونانی دواؤں کے اشتہاروں سے۔ اگر یہ دلچسپی ختم ہو جائے تو دواؤں کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے کچھ پہلے وہ اخبارات بھی بند ہو جائیں جن میں یہ اشتہارات نکلتے ہیں۔ اگر آپ کو آسکر وائلڈ کی رائے سے اتفاق ہے کہ آرٹ کا اصل مقصد قدرت کی خام کاریوں کی اصلاح اور فطرت سے فی سبیل اللہ جہاد ہے، تو لازمی طور پر یہ مانناپڑے گاکہ ہر بدصورت عورت آرٹسٹ ہے۔ اسلئے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اس کی ساری تگ و دو کا منشا سیاہ کو سفیدکر دکھانا، وزن گھٹانا اور ہر سالگرہ پر ایک موم بتی کم کرنا ہے۔ عمر کی تصدیق تو شاید بلدیہ کے ’’رجسٹر پیدائش و اموات‘‘ سے کی جا سکتی ہے لیکن ایک دوسرے کے وزن کے متعلق بھاری سے بھاری بہتان لگایا جاسکتا ہے۔ رائی کا پہاڑ اور گرمی دانے کا مسا بنانا لتری عورتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ وہ عورت جسے خود اپنی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نظر نہیں آتے، دوسرے کی جھائیوں پر بے جھجک اپنی بڑے ہوئے ناخن والی انگلی اٹھاتے وقت یہ بھول جاتی ہے کہ ہر گل کے ساتھ خار اورہر منہ پر مہاسا ہوتا ہے۔
عورتیں فطرتاً بہت راسخ العقیدہ ہوتی ہیں اور اپنے بنیادی عقائد کی خاطرعمر بھر سب کچھ ہنسی خوشی برداشت کرلیتی ہیں۔ مثلاً سات نمبر پاؤں میں پانچ نمبر کا جوتا۔ وزن کم کرنے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرتیں۔ غسل آفتابی، جاپانی مالش، یونانی جلاب،انگریزی کھانا، چہل قدمی، ورزش،فاقہ۔۔۔ پہلے چہل قدمی کو لیجئے کہ امرت دھارا کی طرح یہ ہرمرض کی دوا ہے۔ سوکھے ساکھے مرد اپنا وزن بڑھانے اور عورتیں اپنا وزن گھٹانے کے لئے ٹہلتی ہیں۔ جس طرح چائے گرمی میں ٹھنڈک پہنچاتی ہیں اورسردی میں حدت، اسی طرح چہل قدمی دبلے کو موٹا اور موٹے کو دبلا کرتی ہے۔ اگر ہماری طرح آپ کو بھی الفنسٹن اسٹریٹ پر ٹہلنے کا شوق ہے تو آپ نے بعض میاں بیوی کوان مختلف بلکہ متضاد عزائم کے ساتھ پابندی سے ’’ہوا خوری‘‘ کرتے دیکھا ہوگا۔ عورتوں کا انجام ہمیں معلوم نہیں لیکن یہ ضرور دیکھا ہے کہ بہت سے ہوا خور رفتہ رفتہ ’’حوا خور‘‘ ہو جاتے ہیں۔
جو عورتیں دواؤں سے پرہیز کرتی ہیں، وہ صرف ورزش سے خود کو ’’سلم‘‘ رکھ سکتی ہیں۔ ’’سلمنگ‘‘ کے موضوع پر عورتوں کی رہبری کیلئے بے شمار با تصویر کتابیں ملتی ہیں جن کے مضامین عورتیں پڑھتی ہیں اور تصویروں سے مرد جی بہلاتے ہیں۔ ان میں بتایا جتا ہے کہ مرد کاٹھ کے پتلے کی مانند ہے، لیکن عورت موم کی طرح نرم ہے۔ چنانچہ مرد کوہر سانچے میں ڈھال سکتی ہے۔ پھراسکے اپنے گوشت پوست میں قدرت نے وہ لوچ رکھا ہے کہ،
سمٹے تو دل عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے
چنانچہ ہرعضو بدن کے لئے ایک علاحدہ ورزش ہوتی ہے۔ مثلاً دوہری ٹھوڑی کو اکہری کرنے کی ورزش 51 انچ کو 15 انچ بنانے کی کسرت۔ ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر غذا ہضم کرنے کی ترکیب۔ شرعی عیوب کا ہپناٹزم سے علاج وغیرہ۔ توند کیلئے ماہرین کا خیال ہے کہ سیاست داں کے ضمیر کی مانند ہے۔ اس کی لچک کو ذہن نشین کرانے کی غرض سے وہ اکثر اسے مولوی اسماعیل میرٹھی کے ’وقت ‘سے تشبیہ دیتے ہیں جس کے متعلق وہ کہہ گئے ہیں کہ؛
وقت میں تنگی فراخی دونوں ہیں جیسے ربڑ
کھینچنے سے کھنچتی ہے،چھوڑے سے جاتی ہے سکڑ
حق تو یہ ہے کہ جدید سائنس نے اس قدر ترقی کرلی ہے کہ دماغ کے علاوہ جسم کا ہر حصہ حسب منشا گھٹایا اور بڑھایا جاسکتا ہے۔
یہی حال عورتوں کے رسالوں کاہے۔ ان کے (رسالوں کے) تین ٹکڑے کئے جا سکتے ہیں۔ اول؛ آزادیٔ اطفال اور شوہر کی تربیت و نگہداشت۔ دوم؛ کھانا پکانے کی ترکیبیں۔ سوم کھانا نہ کھانے کی ترکیبیں۔ ان مضامین سے ظاہر ہوتا ہے کہ تشخیص سب کی ایک ہی ہے۔ بس نسخے مختلف ہیں۔ پرہیز بہر صورت یکساں! اس امر پر سب متفق ہیں کہ افزائش حسن کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ایسی غذا کھائی جائے جس سے خون صالح نہ پیدا ہو اورجو جز وبدن نہ ہو سکے۔ ہماری رائے میں کسی پڑھی لکھی عورت کے لئے اس سے سخت اور کونسی سزا ہو سکتی ہے کہ اسے چالیس دن تک اس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھلایاجائے۔ دبلے ہونے کا اس سے بہتر اور زوداثر طریقہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
رسالوں کے اس حصے میں تاریخی ناولوں کا چٹخارہ اور یونانی طب کی چاشنی ہوتی ہے، اس لئے نہایت شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ چند عنوانات اور ٹوٹکے بطور نمونہ پیش کئے جاتے ہیں۔
زلیخا حضرت یوسف کے پیچھے دوڑنے کی وجہ سے دوبارہ جوان ہوئی! قلو پطرہ کے نازک اندام ہونے کا راز یہ ہے کہ وہ نہار منہ مصری تربوز کا پانی اور رعیت کاخون پیتی تھی۔ ملکہ الزبتھ اسلئے دبلی تھی کہ میری آف اسکاٹ نے اس کا موم کا پتلا بنا رکھا تھا جس میں وہ چاندنی رات میں سوئیاں چبھویا کرتی تھی۔ کیتھرین، ملکہ روس کے’سلم‘ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ رات کو روغن قاز مل کر سوتی تھی۔ ملکہ نور جہاں بیگن پر جان دیتی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ بیگن کے سر پر بھی تاج ہوتا ہے، بلکہ اس میں کوئی پروٹین نہیں ہوتی۔ ملکہ ممتاز محل اورتاج محل کی خوبصورتی کاراز ایک ہی ہے۔ سفید رنگ! ایکٹرس آڈرے ہیپ برن اسلئے موٹی نہیں ہوتی کہ وہ ناشتے میں نشاستے سے پرہیزکرتی ہے اور پھیکی چائے پیتی ہے جس سے چربی پگھلتی ہے۔
چائے کی پتی سے گھٹ سکتا ہے عورت کا شکم
دبلے آدمی کینہ پرور،سازشی اور دغا بازہوتے ہیں۔ یہ ہماری نہیں بلکہ جولیس سیزر کی رائے ہے جس نے ایک مریل سے درباری کی ہاتھوں قتل ہو کر اپنے قول کو سچا کردکھایا۔ گو کہ ہمارے موزے کا سائز صرف گیارہ اور بنیان کاچونتیس ہے لیکن ہمیں بھی اس نظریہ سے اتفاق ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ موٹی عورتیں فطرتاً ملنسار، ہنس مکھ اور صلح پسند ہوتی ہیں۔ وہ نہ خودلڑتی ہیں اور نہ مرد ان کے نام پر تلوار اٹھاتے ہیں ممکن ہے کوئی صاحب اس کایہ جواز پیش کریں کہ چونکہ ایسی گج گامنی کی نقل وحرکت بغیر جر ثقیل کے ممکن نہیں لہذا وہ نہ ڈٹ کر لڑ سکتی ہے اور نہ میدان چھوڑ کر بھاگ سکتی ہے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آج تک کسی موٹی عورت کی وجہ سے کوئی جنگ نہیں ہوئی۔
خدا نخواستہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم حسن میں ہارس پاور کے متلاشی ہیں اور اکھاڑے کی رونق کو چھپر کھٹ کی زینت بنانے کی سفارش کر رہے ہیں۔ ہمارے ذہن میں حسن بے پروا کا یہ سراپا نہیں کہ ہر خط بدن ایک دائرہ بنا رہاہے۔ پیٹ پر ٹائر بندھا ہوا ہے۔ چہرے سے لگتا ہے کہ ابھی ابھی بھڑوں نے کاٹا ہے۔ اگر یہ صحیح ہے کہ اس بچاری کا سینہ ارمانوں کامدفن ہے تو یہ صاف ظاہر ہے کہ مرحومین کی تعداد کچھ زیادہ ہی تھی۔ کھلے ہوئے گلے کے بلاؤز کا یہ عالم کہ کوئی شیرخوار بچہ دیکھ پائے تو بلبلااٹھے۔ تنگ پوشی کا یہ حال کہ کوزے میں دریا بلکہ پہاڑ بند۔ ٹانگیں جیسے بوڑھے ہاتھی کی سونڈ جن پر غرارہ بھی چوڑی دار پاجامہ معلوم ہوتا ہے۔
ایسی ہی چوڑی چکلی خاتون کا لطیفہ ہے کہ انہوں نے بس ڈرائیور سے بڑی لجاجت سے کہا، ’’بھیا! ذرا مجھے بس سے اتر وادے۔‘‘ ڈرائیور نے مڑ کر دیکھا تو اس کا چہرہ فرشتوں کی طرح تمتما اٹھا۔ ان فرشتوں کی طرح جنہوں نے بار خلافت اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ پھرخود ہی بولیں،’’میری عادت ہے کہ دروازے سے الٹی اترتی ہوں مگر تمہارا الٹی کھوپڑی کا کنڈکٹر سمجھتا ہے کہ چڑھ رہی ہوں اور ہر دفعہ زبر دستی اندر دھکیل دیتا ہے۔ تین اسٹاپ نکل گئے۔‘‘
ہم یہاں یہ پر چار نہیں کر رہے کہ حسن اور وزن میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لئے اب خود اس مثالی رشتے کے بند ٹوٹ چکے ہیں۔ ہم تو صرف قارئین کرام کو اطمینان دلانا چاہتے ہیں کہ تندرستی کوئی لاعلاج نسوانی مرض نہیں ہے۔ ہمیں کمزوری میں جب تک وہ اخلاقی نہ ہو، بظاہر کوئی دلکشی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح فاقہ کشی صرف دو صورتوں میں جائز ہے۔ کسی شرعی ضرورت یا بطور ستیہ گرہ۔ مگر وزن گھٹانے کی غرض سے جو فاقہ کشی کی جاتی ہے اس کی محرک کوئی روحانی حاجت یا سیاسی مصلحت نہیں بلکہ خدائے مجازی کی پسند ہے۔ اس پیکر تصویر کے خطوط کی بے کیف سادگی اور پھیکا پن مردکے عجز تصور کے فریادی ہیں۔ یہ کہنا تو زیادتی ہوگی کہ حسن بیمار کے پیچھے ایک چھکے چھکائے تھکے ہوئے حسن پرست کی جنسی اکتاہٹ کار فرما ہے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ مرد کی پسند وہ پل صرا ط ہے جس پر کوئی موٹی عورت نہیں چل سکتی۔
مشتاق احمد یوسفی