نیند جھوٹا پانی ہوئی
ہم دھُوپ کی تمنا میں ٹھٹھرے ہوئے تھے
کہ سورج کے نیزوں پہ
ہماری صبح ہوتی ہے
ہم کِس دُکھ سے
اپنے مکان فروخت کرتے ہیں
اور بھوک کے لئے چیونٹی بھر آٹا خریدتے ہیں
ہمیں بند کمروں میں
کیوں پرو دیا گیا ہے
ایک دن کی عمر والے
تو ابھی دروازہ تاک رہے ہیں
ہم آئینوں میں دفن ہو چکے ہیں
ہماری آوازیں زخمی کر دی گئی ہیں
ہمیں جھوٹی چال کے لئے
جھوٹی زمین پہ چلنے کی دعوت ہے
ہمارے لباس دفن کر کے
ہمیں شرم کے حوالے کر دیا گیا ہے
ہم اپنے بدن کے گناہ
اپنی ہی آنکھوں سے چُن رہے ہیں
جیسے ساکت اسٹیشن پر
ساکت گاڑی کھڑی ہو
اور ہمارے سفر ختم ہو چکے ہوں
دل جسم کے سارے اعضاء چاہتا ہے
آنکھوں پہ کنویں جاری کرنے کا حکم
صادر ہو چکا ہے
میں اپنی قبر کو
سانس لیتے ہوئے دیکھ رہی ہوں
دریا سمندر سے آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے
اپنے ہاتھ کٹوا لیتا ہے
اور کھُدی امین سُوکھی ہو جانے کے غم میں
کھیتوں کا مزاج برہم کر دیتی ہے
ہاتھ تاپنے کی قسم کھائی تھی
اور آگ میں پر دیئے گئے
اور گلیاں جب قسم کھاتی ہیں
انہیں چوراہوں میں پرو دیا جاتا ہے
پلڑوں پہ رکھے ہوئے پتھر بھی تلتے ہیں
اور دوسرے پلڑے پر
پھُول تولے جا رہے ہیں
نوکری کرنے کے شوق میں
زندگی کی تنخواہ چاہتے ہیں
ہم کیسے رہن رکھے گئے امینوں پر
کہ تم ہمیں
سانس کے لوٹ آنے کی مہلت تک نہ دو
اور پوچھو تمہارے کپڑے زندہ ہیں
اور گاڑ کے سفید پرچم زمینوں پر
کسی بھی وطن کی نشاندہی نہ کرو
وہ آنسو جو میرے مرنے کے بعد
میرے دامن کو تَر کریں
اُنہیں اِنہیں آنکھوں میں رہنے دینا
یہ آنکھیں ہیں کہ زخم
رات پرندہ ہوئی
نیند جھوٹا پانی ہوئی
کنوارے سمندر کا جوڑ نہ کوئی
چراغ تلے رات ہے یا ہاتھ کسی کا
بانسری میں اٹکی آواز
سناٹوں کی چہل قدمی
ریت پر چلتی ہوائیں
سانپوں کی شبیہیں بنائیں
اور پیڑوں نے اپنی چھاؤں
سورج کے حوالے سے ناپی
ہم نے اپنی چھاؤں اپنے دل سے ناپی
چاند آسمان پہ آنکھیں موندے
نابینا کی جھولی دیکھتا ہے
ایک دن ایک بات کہی تھی میں نے
آنسو ہو تو آنکھوں جیسا
اِس چلتے پھرتے سُورج نے بھی
لو ہماری عمر پہ آنکھ ماری
بند ہاتھوں کا گہنا مٹھی
تنگ گلیوں میں دوڑتے قدم
اپنے ایک پاؤں کے ساتھ
گندی نالی باندھ لیتے ہیں
اور باغبان کُلہاڑا لیے
صبحِ صادق سے گُلشن میں خاک کھودتا ہے
جس طرح سمندر میں ڈھونڈنا مشکل ہے
اسی طرح ہم شاخ پر کِھلے
پھول کی پوری پیدائش سے غافل ہیں
روٹی پر ختم ہو جانے والی زندگی
تتلیوں کو پھول سے
باندھ آنے کی سی عادت ہے
رفتہ رفتہ دہلیزیں
میرے پاؤں چھوٹے کرتی جا رہی ہیں
رفتہ رفتہ آنکھیں
اپنے ہی دل میں گڑی جا رہی ہیں
جنوں کے بادبانوں میں
چند شاخیں کاٹ کر بہا دی گئی ہیں
جن کی بہاریں مُردہ زمین پر
بے بس ہو چکی ہیں
میرے چلنے پہ
زمین نے صدا لگانا چھوڑ دی ہے
میرے پاؤں کاٹ کے
گھٹنے لگا دیئے گئے ہیں
میں خلا میں گُم ہو جانے والا
شعلہ نہیں بننا چاہتی
میری مٹی میں
میری رُوح کو تشنہ کیا جا رہا ہے
آئینے پانیوں کے ساتھ تھم گئے
آدمی اپنا چہرہ دیکھنے سے محتاج ہو گیا
اس لئے دوسرے چہرے پر
اپنے زاویے بناتا چلا جا رہا ہے
قبروں پر پھیلی چھاؤں
پیڑوں کو اُداس کئے ہوئے ہے
کہ وطن تو میرا مہکار بانٹنا تھا
لفظ جیسے کسی نے زبان سے نوچ کر
کسی سُوکھے کنویں میں بند کر دیئے ہوں
ہوائیں صرف چیزوں کی آوازیں ہیں
اب مُنتظِر کو
میرے پہنچنے تک کا حوصلہ رکھنا چاہیے
سارا شگفتہ