محو حیرت ہوں کہ کیا کیا نہیں ہو سکتا یار
ایک بس تو ہے کہ میرا نہیں ہو سکتا یار
تابِ رخ لا نہ سکیں گے تری زلفوں کے اسیر
آنکھ تو دید کا صدقہ نہیں ہو سکتا یار
تو نہیں ہے تو رچا ہے یہ تماشائے جنوں
تیرے ہوتے یہ تماشا نہیں ہو سکتا یار
ایک معیار ہے کچھ تیری حقیقت سے بعید
تو مری سوچ سے اچھا نہیں ہو سکتا یار
وہ جسے چاہے خدا واسطے اپنا کہہ لے
اس تقاضے پہ تقاضہ نہیں ہو سکتا یار
تیری یادوں میں جیئے، آہ بھرے اور مرجائے
تیرے بیمار سے اتنا نہیں ہو سکتا یار
یہ تو ممکن ہی نہیں کوئی نہ ہو تیرے لیے
تو خدا جتنا اکیلا نہیں ہو سکتا یار
اس میں احرام ترا دل ہے، دھڑکتا ہوا دل
یہ ترے جسم کا ملبہ نہیں ہو سکتا یار!
شبیر احرام