سبھی کچھ خاک میں تحلیل ہوتا جا رہا ہے
چلو یہ شہر بھی تبدیل ہوتا جا رہا ہے
کسی کی گفتگو میں ایک وہ مفہوم ہے جو
حقائق سے الگ ترسیل ہوتا جا رہا ہے
میں کیسے ترک کر دوں اب کہ یہ کار محبت
کسی کے حکم کی تعمیل ہوتا جا رہا ہے
میں کیا ترتیب دینا چاہتا ہوں اور مجھ سے
یہ کیا ہے جو یہاں تشکیل ہوتا جا رہا ہے
نہیں کھلتا یہ کیسا خوف ہے جو لمحہ لمحہ
سبھی کے خون میں تحلیل ہوتا جا رہا ہے
قمر رضا شہزاد