- Advertisement -

صفاتی ناول ’’صُفہ‘‘اور دُردانہ نوشین خان

تبصرہ نگار :مجیداحمد جائی

صفاتی ناول ’’صُفہ‘‘اور دُردانہ نوشین خان کادلیر قلم

انسان کو دوسری مخلوق پر ممتاز کرنے والے دو ہی فعل ہیں ۔ ’’آنسو اور مسکراہٹ‘‘ ۔ اس قیمتی خزانے کو اپنے رب کی راہ میں خرچ کرو ۔ رب کی راہ میں خرچ کرنا یہ بھی ہے کہ کسی غریب ،یتیم کی حالت دیکھ کر آنکھ بھر آنا ۔ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دُنیاوی چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل کا روگ نہ بنایا کرو ۔ یاد رکھنا آنکھیں بھی خالی ہو جاتی ہیں ۔

یہ اقتباس صفاتی ناول ’’صُفہ ‘‘سے لیا گیا ہے ۔ جس کو دُر دانہ نوشین خان نے لکھا ہے ۔ دُر دانہ نوشین خان میرے ہمسائے شہر مظفر گڑھ کی باسی ہے ۔ آپ کتاب دوست ،کتابوں سے محبت کرنے والی مسکراتی شخصیت کی مالک ہیں ۔ دُر دانہ نوشین خان کالم نگار ،ناول نگار اور خوب صورت لب ولہجے کی شاعرہ بھی ہیں ۔ پہلا زینہ ،اندر جال ،ریت میں ناءو ،ریگ ماہی ،ریت کے بُت ،پھولوں کی وفو گری اور اب شاہکار ناول ’’صُفہ‘‘دُردانہ نوشین خان کے فکر وفن اور افکار و خیال کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

’’صُٖفہ‘‘ایک ایسا ناول ہے جس کا ہر پرت ،ایک نیا در کھولتا ہے ۔ اس میں تجسس ہے ،کشمکش ہے ،جزائیات نگاری ،کم کم منظر نگاری بھی اوراستعارے بھی ہیں ۔ اس میں عشق و محبت کے قصے نہیں بلکہ لمحہ لمحہ خود کی تلاش کراتا ناول ہے ۔ اس ناول کی خوبیاں ہی خوبیاں ہیں ۔ اس ناول میں تصوف،تاریخ ،احادیث اور قرآن پاک کی آیات کے حوالے ہیں جو اپنے کرداروں سے بیان کرائے گئے ہیں ۔

’’صُفہ‘‘ناول میں دُردانہ نوشین خان کئی سوالات اُٹھاتی ہیں اور قاری کو فکر و خیال کی طرف راغب کرتی ہیں ۔ یہ اقتباس دیکھئے ’’عورت دُنیا ہے ،دُنیا دار ہے ۔ اس لیے کہ اس کو روحانی ارتقاء کا کوئی الگ سے وعدہ نہیں دیا گیا ۔ اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی ۔ وہ جماعت نہیں کراسکتی ،اذان نہیں دے سکتی ،فتویٰ نہیں دے سکتی ،کوئی لیڈنگ علمی رول ادا نہیں سکتی ناں ۔ ۔ یہی بات

دُر دانہ نوشین خان ’’صُفہ‘‘ناول میں جگہ جگہ فکر وافکار کے نئے در وا کرتی نظر آتی ہیں ۔ ناول سادہ اور عام فہم ہے ۔ اسلوب شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ کسی بھی لکھاری کو لے لیں اس کے اسلوب سے اس کی شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ۔ دُردانہ نوشین خان ’’صُفہ ‘‘ناول میں قاری کے آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کرتی نظر آتی ہیں ۔ چند جملوں کو پڑھئے ۔ آپ کسی حد تک اس ناول کو سمجھنے میں کامیاب ہو جائیں گے ۔ ’’شاعری ادب کو لے لو ،کبھی کسی نے عورت کی صفاتی تعریف نہیں کی ،بیڑا غرق کر دیا ۔ اُنہوں نے عورت کو انسان سمجھنے کا ،عورت ہے تو جو بن بہار ۔ خدا ہونے کا دعویٰ بھی مردوں نے کیا ہے ۔ عورت نے آج تک یہ نہ کہا ، میں تمہارارب ہوں ۔ دُنیا ایک ایسا کُتا ہے جسے ہم اپنے ہاتھ میں ہڈی لیے ،لیے پیچھے لگاتے ہیں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔

’’صُفہ ‘‘ناول کا نام اصحاب صُفہ کی نسبت سے ہے ۔ اس کا مرکزی کردار صُفہ بخاری ہے ۔ جو خیربانٹتی ہے ۔ اللہ سے ملواتی ہے ۔ اللہ سے باتیں کراتی ہے ۔ جو بھی اس سے ملتا ہے وہ سب کچھ بھول بھال کر خیر کے راستے کا مسافر ہو جاتا ہے ۔ اس میں علاقائی زبانوں کا تڑکا بھی ملتا ہے ۔ مقامی الفاظ کا استعمال ناول میں ندرت اور انفرادیت پیدا کرکے دلچسپی میں اضافہ در اضافہ کرتا ہے ۔ ۔

’’صُفہ‘‘ناول کا سرورق بہت ہی پیار ا ہے ۔ اگر سرورق کو غور سے دیکھا جائے اور غوروفکر کیا جائے تو ناول کے پلاٹ کو جان سکتے ہیں ۔ بیک فلاپ پر دُردانہ نوشین خان کی تصویر ہے اور تصویر کے نیچے ’’ابدال بیلا‘‘کے تاثرات ہیں ۔ لکھتے ہیں ’’صُفہ‘‘کہنے کو اس چار نکری چراغٖ کے چاروں کونے چار سندریاں ہیں ،کچھ مرچیلی ،کوئی نمکین ۔ کسی میں مٹھاس ،کون کس لمحے ،کون ساموڑ مڑگئی ۔ یہ آپ پورا ناول پڑھ کر جان لیں گے ۔ خیر اور شر کی داستان پرانی ہے ۔ دُردانہ نوشین خان نے اپنی تخلیقی ایچ سے اپنے اُجلے من میں کہانی کو پُروکے معاشرے کو خیر کا ایک قابل ِتقلید رُخ دکھایا ہے ۔ جو شاندار ہے ۔

’’صُفہ‘‘کو علی میاں پبلی کیشنز نے نومبر 2019ء میں شائع کیا ہے ۔ جس کے 318صفحات ہیں اور اس کی قیمت چھ سو روپے ہے ۔ انتساب بہت خوبصورت ہے جو کچھ یوں ہے ۔ ’’افضل النساء العالمین ،افضل النساء الجنتہ سیدہ کائنات ،اُم ابیہا جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بی بی فاطمہ بتول سلام اللہ علیھا ،میرے ماں باپ ،اولاد آپ پر قربان ،میری کُل حیاتی کا حاصل کلام و قلم آپ ہیں ۔

میں کون ہوں کے عنوان میں دُردانہ نوشین خان لکھتی ہیں ۔ شوق ایک بے نیازی ہے ۔ اس پہ جتنا غور کیا اتنا ہی لطف آیا اتنا ہی کھلتا چلا گیا ۔ کسی بھی شوق کو مطلق بے نیازی اپنائے بغیر پایا نہیں جا سکتا ۔ شوق کے اخلاص کا پیمانہ ماسوائے بے نیازی نہیں ۔ جنون شوق کا منفی مظہر ہے ۔ شوق خود اپنی راہ کے خار وکنکر پہچان کے بچ کے چلے ،گر نہ پہنچانے تو پاءوں زخمیانے پہ واویلا نہ کرے ۔ سبق سیکھے پلو سے باندھے ۔ واویلا فریادہے اور فریاد بے نیازی نہیں بلکہ طلب امداد ہے ۔ گریہ بے نیازی میں ہوتا ہے ۔ باطن میں لہو ٹپکاتا ہواگر یہ ،ظاہر سے بے نیازواحد کا نیاز مند ۔ ۔ ۔ ہوتا بے حد وحساب کٹھن ہے جان پہ کر بلا گزر جاتی ہے ۔ میں مدتوں سے شب کے شفاف آسمان کو بیرنگ لفافے پوسٹ کرتی چلی آرہی ہوں ۔ آسمان کتنا سخی ہے اس نے کبھی نہیں لوٹائے ۔ موصول ہو جانا (کر لینا )بانصیب سماعت اور بڑا اطمینان ہے ۔

’’صُفہ‘‘ناول کے کل چودہ ابواب ہیں ۔ جن کا مطالعہ کرتے ہوئے قاری بوریت محسوس نہیں کرتا بلکہ ہر باب میں دلچسپی ،تجسس بڑھتا چلا جاتا ہے اور قاری مٹھاس اور مسرت محسوس کرتا ہے ۔ مجھے تو باب نمبر تیرہ نے رُولا دیا ہے ۔ قاری سے زیادہ لکھاری حساس دل رکھتا ہے ۔ ضروری نہیں کے قاری اور لکھاری کی سوچیں ایک ہی ہوں لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے ۔ اس ناول کو پڑھ کر آپ ،خود کو ضرورتلاشیں گے ۔ جستجو میں ضرور نکلیں گے اور اس ناول کو مدتوں یاد رکھیں گے ۔

 یہ ناول لمحہ لمحہ تڑپاتا ہے ۔ سِسکھاتا ہے ،نئی سوچوں کے در کھولتا ہے ۔ جس میں دین ہے ،دُنیا ہے ،خدا ہے انسان ہے ۔ خود سے سوالات کراتا ناول ہے ۔ جوابات کی تلاش اور منزلوں کے راستوں پر گامزن کرتا ہے ۔ میں نے اس کو لفظ لفظ پڑھا ہے پھر بھی بار بار پڑھنے کومن کرتا ہے ۔ آپ بھی ایک بار میرے کہنے پر مطالعہ کیجئے آپ کی زندگی کے دھاڑے ضروربدل جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ دُردانہ نوشین خان کو سلامت رکھے اور یہ ناول ان کے لیے ذریعہ نجات بن جائے آمین

تبصرہ نگار :مجیداحمد جائی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
بات کرکے دیکھتے ہیں تبصرہ نگار:مجیداحمد جائی