اردو غزلیاتساحر لدھیانویشعر و شاعری

کل اور آج

ساحرؔ لدھیانوی کی اردو نظم

کل اور آج

کل بھی بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
۔۔۔اور کوی نے سوچا تھا

بادل یہ آکاش کے سپنے ان زلفوں کے سائے ہیں
دوش ہوا پر میخانے ہی میخانے گھر آئے ہیں
رت بدلے گی پھول کھلیں گے جھونکے مدھ برسائیں گے
اُجلے اُجلے کھیتوں میں رنگین آنچل لہرائیں گے
چرواہے بنسی کی دھن سے گیت فضا میں بوئیں گے
آموں کے جھنڈوں کے نیچے پردیسی دل کھوئیں گے
پینگ بڑھاتی گوری کے ماتھے سے کوندے لپکیں گے
جوہڑ کے ٹھہرے پانی میں تارے آنکھیں جھپکیں گے
الجھی الجھی راہوں میں وہ آنچل تھامے آئیں گے
دھرتی، پھول ، آکاش ، ستارے سپنا سا بن جائیں گے

کل بھی بوندیں برسی تھیں
کل بھی بادل چھائے تھے
اور کوی نے سوچا تھا

آج بھی بوندیں برسیں گی
آج بھی بادل چھائے ہیں
۔۔۔اور کوی اس سوچ میں ہے

بستی پر بادل چھائے ہیں پر یہ بستی کس کی ہے
دھرتی پر امرت برسے گا لیکن دھرتی کس کی ہے
ہل جوتے گی کھیتوں میں الہڑ ٹولی دہقانوں کی
دھرتی سے پھوٹے گی محنت فاقہ کش انسانوں کی
فصلیں کاٹ کے محنت کش غلّے کے ڈھیر لگائیں گے
جاگیروں کے مالک آ کر سب پونجی لے جائیں گے
بوڑھے دہقانوں کے گھر ، بنیے کی قرقی آئے گی
اور قرضے کے سود میں کوئی گوری بیچی جائے گی
آج بھی جنتا بھوکی ہے کل بھی جنتا ترسی تھی
آج بھی رم جھم برکھا ہو گی کل بھی بارش برسی تھی

آج بھی بادل چھائے ہیں
آج بھی بوندیں برسیں گی
۔۔۔۔اور کوی اس سوچ میں ہے

ساحر لدھیانوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button