- Advertisement -

منفی سوچ اور صحت کا حسّاس معاملہ

ایک اردو کالم از منزہ سیّد

منفی سوچ اور صحت کا حسّاس معاملہ

ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی کی بھی پھیلائی ہوئی من گھڑت بات پر یقین کر لیتے ہیں.اور پھر خود بھی دروغ گوئی کے اِس مکروہ سلسلے میں شامل ہو کر جھوٹ کو سچ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے ایک پل کے لئے بھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ ایسی بے بنیاد باتیں یا افواہیں ہمارے ملک یا عوام کے لئے کس قدر نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں۔بس ہم تو بلا سوچے سمجھے اپنے منفی خیالات کو دوسروں کے اچھے عمل یا کردار پر تھوپ کر اپنے اردگرد پھیلا دینے میں یوں فخر محسوس کرتے ہیں کہ جیسے ہم نے آگہی اور دانش کی ساری منزلیں ایک ہی افواہ پھیلا کر طے کر لی ہوں۔بات شروع ہوئی افواہ کی تو افواہیں پھیلانے میں ہم اپنی مثال آپ ہیں۔۔ملک بھر میں گذشتہ کئی ادوار سے عوام کو صحت عامہ کی سہولیات فراہم کرنے کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات کے بارے میں بے مقصد پروپیگنڈہ ہمارے مزاج کا حصہ بن چکا ہے ۔جہاں کہیں ہماری آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے کوئی پروگرام شروع کیا جاتا ہے تو مفاد پرست مافیا اس میں رکاوٹیں پیدا کرنے کیلئے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شہبات پیدا کرنے کی ایک باقاعدہ مہم شروع کر دیتا ہے ۔جس کی وجہ سے حکومت کیلئے مطلوبہ اہداف کا حصول دشوار ہو جاتاہے ۔
بچوں کو جان لیوا بیماریوں سے بچانے کے لئے ’’حفاظتی ٹیکوں‘‘کا سلسلہ شروع کیاگیا لیکن اس وقت اسکے خلاف زیادہ مخالفت دیکھنے میں نہیں آئی، اس دور میں خناق،تشنج،کالی کھانسی،نمونیہ،تپ دق اور خسرہ میں مبتلا ہو کر شیر خوار بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری رہا تو اپنے بچوں کی زندگی بچانے کی خاطر بالآخر لوگوں کو اِن ٹیکوں کی افادیت کا اقرار کرنا پڑایوں یہ سلسلہ کامیابی کے ساتھ چلتا رہا ،لیکن بعد ازاں آنے والی حکومتوں میں جب’’پولیو‘‘کے قطرے پلوانے کا سلسلہ شروع کیا گیاتوبعض عناصرنے اپنے مذموم مقاصد کے پیش نظر پاکستانی عوام میں اس بارے میں شکوک و شہبات پیدا کرنے کی باقاعدہ مہم چلائی کہ اِن قطروں کے ذریعے پاکستانیوں کو شیر خوارگی کی عمر ہی سے ’’بانجھ‘‘ بنانے کی سازش کی جا رہی ہے ۔یوں پسماندہ دیہات میں پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں سے بچوں کو چھپانے کے ساتھ ساتھ پولیو ٹیموں کے ساتھ بدتمیزی معمول بن گیا ،بعض جگہوں پر لیڈی ہیلتھ ورکرز کو خوف زدہ اور ہراساں کرنے کیلئے اُن پر گولیاں بھی برسائی گئیں اور اُن پر کتے چھوڑے گئے ،پولیو ٹیموں کو گھروں، محلوں اور بستیوں سے نکالا جاتا رہا ۔لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کے ذریعے دیہات میں نو عمر بچیوں کو پیٹ کے کیڑوں کی گولیاں کھلانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تو پھر سے عوام میں کھلبلی مچ گئی کہ یہ گولیاں بھی شاید بچیوں کو’’ بانجھ‘‘ بنانے کے لئے ایک سازش ہے۔
اب بات کرتے ہیں’’کورونا ویکسین‘‘کی کہ جو ابھی مارکیٹ میں نہیں آئی لیکن اس کے خلاف بھی ملک کے بیشتر دور اندیش لال بجھکڑوں نے ایک مہم چلا رکھی ہے کہ خدا نخواستہ اس ویکسین کے ذریعے دنیا بھر کے لوگوں کو معاشی لحاظ سے غلام بنایا جائے گااور یہ ویکسین ایک” چِپ” کی صورت انسانوں میں منتقل کی جائے گی۔
چلیئے !ہم ایک لمحے کو فرض کئے لیتے ہیں کہ پاکستان میں آنے والی تمام غیر ملکی ادویات یا امدادی اشیائے خورد و نوش میں منصوبہ بندی یا’’بانچھ پن ‘‘ پیدا کرنے دوا شامل ہوتی ہے تو اِس سوال کا جواب کون دے گا کہ پاکستان کی آبادی نو(9) کروڑ سے بائیس(22) کروڑ تک کس حکیمی نسخے کی مدد سے پہنچی۔؟ یقینا اس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
اب آئیے!اس بات پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کون سا طبقہ زیادہ بچے پیدا کر کے اپنی نسل بڑھانے میں مصروف ہے تو ذہن میں رکھیئے کہ پڑھا لکھا طبقہ2 یا 3بچوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کا خواہاں نہیں، کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو بچے کی بہترین پرورش، تعلیم اور غذا کی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے’’کم بچے خوشحال گھرانہ‘‘ کے ماٹو پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ہرسال بچہ پیدا کرنے والا طبقہ وہ ہے جنہیں پیٹ بھر روٹی بھی بہت تگ و دو کے بعد نصیب ہوتی ہے۔جی ہاں! بالکل یہاں تذکرہ ہو رہا ہے پسماندہ و ناخواندہ طبقے کا کہ جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی بھیجی روحوں کو ہم کس طرح آنے سے روک سکتے ہیں جن کے بقول بچوں کی پیدائش میں وقفہ یا بندش سخت گناہ ہے۔ان گھرانوں کی اکثریت میں15 یا 16بچے پیدا کرنا عام سی بات ہے۔المیہ یہ ہے کہ بعد ازاں یہی بچے گلیوں بازاروں میں پھرتے یا مزدوری کرتے ہوئے معاشرتی درندگی کا شکار بنتے ہیں۔توسوچنے کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں ایسے ستم رسیدہ بچوں کی پیدائش سے یورپی ممالک کو کیا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی پیدائش روکنے کے لئے اپنے سائنسدانوں کو دن رات لیبارٹریز میں بٹھا کر ویکسینز یا دیگر مانع حمل ادویات تیار کروائیں اورحفاظتی ٹیکوں،پولیو کے قطروں،پیٹ کے کیڑے مارنے والی گولیوں میں ملا کر پاکستان بھیجیں تاکہ مسلمانوں کی نسل بڑھنے سے رک سکے،جبکہ وہ پاکستان سمیت موجودہ دور کے بیشتر مسلمانوں کی ذہنیت اور نفسیات سے اچھی طرح واقف ہیں اس لئے انہیں مسلمانوں کو ذہنی طور پر غلام بنانے کے لئے اتنی محنت کی ضرورت نہیں۔یہ سبھی قوتیں غریب ممالک میں صرف پیسہ پھینک تماشہ دیکھ کے مقولے پر عمل پیرا ہیں جبکہ یہ قوتیں پیسے کی فراوانی کے حامل مسلم ممالک کے لوگوں کو ان کی خواہشات کے مطابق سہولیات فراہم کرکے انہیں اپنے دوست یا حمایتی بنا چکے ہیں۔اس لئے اب بھی وقت ہے۔ہوش کے ناخن لیجیئے اور اپنے فائدے کے لئے آنے والی ادویات کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنے کی عادت ڈالئیے.تاکہ وطنِ عزیز صحت جیسے بنیادی مسئلے کو حل کر کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو سکے.اللہ ہم سب کو ہدایت دے۔آمین

منزہ سیّد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
فرانسس سائل کی ایک اردو غزل