- Advertisement -

کچھ خاک چند خارِ مغیلاں لئے ہوئے

ایک اردو غزل از قمر جلالآبادی

کچھ خاک چند خارِ مغیلاں لئے ہوئے

بستی کو جا رہا ہوں بیاباں لئے ہوئے

دونوں تھے سامنے بصد ارماں لئے ہوئے

میں دل لئے ہوئے تھا وہ پیکاں لئے ہوئے

اب تک تو میں نے کی تھی وفاؤں کی آرزو

اب تم پھرو گے دل میں یہ ارماں لئے ہوئے

او مرنے والے لے کے چلا ہے بس اک کفن

ایسا سفر اور اتنا سا ساماں لئے ہوئے

وہ صبح وصل کہتے تھے رخصت کو بار بار

میں چپ کھڑا تھا ہاتھ میں داماں لئے ہوئے

رسوا کروں گا دستِ جنوں کو گلی گلی

در در پھروں گا چاک گریباں لئے ہوئے

او آئینے کے دیکھنے والے ہمیں بھی دیکھ

ہم بھی کھڑے ہیں دل میں یہ ارماں لئے ہوئے

دیکھیں گے سیر گاہ وہ تاروں کی اے قمرؔ

نکلا ہے روشنی مہ تاباں لئے ہوئے

۔۔۔۔

وہ اگر بن سنور گئے ہوں گے

دیکھنے والے مر گئے ہوں گے

شامِ وعدہ اور انتظار ان کا

جانے وہ کس کے گھر گئے ہوں گے

تم بھی دیکھ آؤ مرنے والے کو

اب تو سب چارہ گر گئے ہوں گے

جب گری ہو گی باغ پر بجلی

اہلِ گلشن کدھر گئے ہوں گے

نیند آئی نہ ہو گی رات انہیں

نالے کیا بے اثر گئے ہوں گے

او سرِ راہ منتظر ان کے

وہ تو کب کے گزر گئے ہوں گے

تم بھی اہلِ جنوں کو پوچھتے ہو

کیا خبر ہے کدھر گئے ہوں گے

چاندنی کم یکا یک اتنی کیوں

بام سے وہ اتر گئے ہوں گے

قمر جلال آبادی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از قمر جلالآبادی