- Advertisement -

کوئلہ بھئی نہ راکھ

ایک اردو افسانہ از واجدہ تبسم

رات تاریک ہے ، میرے نصیب کی طرح۔ آسمان پر اکا دکا ستارے ٹم ٹما رہے ہیں، ان کا میرے آنسوؤں سے کیا مقابلہ؟
میری آنکھوں میں تو ان گنت ستارے جھلملا رہے ہیں، جھلملاتے ہی رہتے ہیں۔ کتنے دن ہو گئے، میری آنکھوں نے مسکرانا چھوڑ دیا، ایسا معلوم ہوتا ہے ہنسی سے میری شناسائی ہی نہیں۔
آج صبح سے میرا دل ہے کہ ڈوبا جا رہا ہے ، یوں رہ رہ کر تو میرا دل کبھی نہ دھڑکا تھا، مٹی کے اس ننھے منے چراغ میں ایسی کیا بات تھی کہ اس کے ٹوٹتے ہی میرا اپنا دل بھی جیسے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ میں نے کتنے جتن سے ، کتنے برسوں سے اس چراغ کو سنبھال سنبھال کر رکھا تھا ۔ ایسا معلوم ہوتا اس چراغ سے میری اپنی زندگی کا گہرا ناطہ ہے، وہ ٹوٹے گا تو میں بھی ٹوٹ کر رہ جاؤں گی ۔
اور آج! آج تو جیسے میرا سبھی کچھ ٹوٹ گیا۔ سبھی کچھ لٹ گیا۔
لیکن میں کیسی پاگل ہوں آفتاب! جو یہ کہہ رہی ہوں کہ آج میرا سبھی کچھ لٹ گیا ، میرا تو اسی دن سب کچھ لٹ گیا تھا جس دن تم مجھے چھوڑ گئے تھے۔
امیدوں، آرزوؤں اور بھروسوں کے سارے چراغ تو اسی دن بجھ گئے تھے۔۔۔
یہ تو میں ہی تھی کہ جو خزاں ہوکر بھی بہار بہار کرتی رہی۔
کتنی پاگل؟ کسی نادان (محبت کرنے والے سچ مچ نادان ، پاگل ہی تو ہوتے ہیں) میں تم سے شکایت نہیں کر رہی ہوں آفتاب۔
شکایت اور گلے تو اپنوں سے کئے جاتے ہیں اور تم نے یہ موقع ہی کب دیا کہ میں تمہیں اپنا سمجھوں یا کہوں؟ سوائے چند لمحوں کے ، وہ لمحے جو میری زندگی کا سکون بن کر رہ گئے ہیں، کاش میں نے یوں ٹوٹ کر کسی کو نہ چاہا ہوتا ۔ لیکن محبت کیا سوچ سمجھ کر کی جاتی ہے آفتاب؟
اب سوچتی ہوں تو یہ سراسر پاگل پن ہی نظر آتا ہے۔ میں نے دل بھی کس سے لگانے کی کوشش کی ؟
تم سے! تم جو سچ مچ آفتاب ہی کی طرح بلند اور دور تھے۔
لیکن آفتاب! میں سچ کہتی ہوں ، تم نے مجھے یوں حوصلہ نہ دلایا ہوتا تو شاید میں تمہاری طرف کبھی دیکھ بھی نہ پاتی، میں نے تو جبھی سے روشنی حاصل کی تھی۔ ( اور تمہیں نے مجھے اندھیروں میں بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیا، کیسا دکھ ہے۔)
کتنے سارے سال گزر گئے ہیں کہ میں نے تمہارے بارے میں کبھی سوچا تک نہیں۔ اور جو دیکھو تو زندگی میں تمہارے سوا اور دوسری کوئی بات ہی نہیں۔
جیسے اپنے آپ سے خود کو بچائی، چھپاتی پھرتی ہوں، آئینے میں خود کو دیکھتی تک نہیں کہ اپنی صورت دیکھوں گی تو تم یاد آجاؤ گے ۔
اس صورت کو تم نے کتنا پیار کیا تھا، کتنا پیار دیا تھا ، کتنا غرور بخشا تھا۔
ان دنوں آئینے کے سامنے جاتی تو گالوں پر گلاب سا بکھر جاتا تھا، اپنا آپا سنبھلتا نہیں تھا۔
آنکھوں کی جوت دیوالی کے چراغوں کی طرح جگمگاتی تھی۔ مجھے میرا ماتھا چاند معلوم ہوتا تھا اور ہونٹوں پر ایسی کلیوں کا گمان ہوتا تھا جو اب کھلیں ، اب کھلیں۔
ان دنوں کوئی مجھ سے میرا نام پوچھتا تو مجھے جھجھک سی آتی تھی۔ میں کیسے کہوں میرا نام ‘شمع’ ہے۔ شمع تو جلتی رہتی ہے اور میں تو مسکراہٹوں سے عبارت ہوں ۔ بھرپور بہادر اور دلکش سپنوں سے میرا وجود مہکا لہکا ہوا ہے ۔
لیکن میں یہ بھولتی ہوں کہ شمع کا کام بہرحال جلنا ہے ۔ میں اکثر سوچتی ہوں آفتاب! کہ اگر میرا نام شمع نہ ہوتا تو کیا واقعی میری زندگی یوں نہ ہوتی؟
لیکن تمہارا نام بھی تو آفتاب ہے۔ سورج بھی تو سدا جلتا ہی رہتا ہے ، پھر تمہارے حصے میں دنیا زمانے کی خوشیاں کیسے ہوئیں اور میں کیوں غموں سے سجائی گئی ہوں؟
شاید یہ میرے اپنے سوچنے کا غلط انداز ہی ہو، ہم عورتیں وہمی ہوا کرتی ہیں نا۔
ہاں یہ میرا وہم ہی تو تھا کہ میں ایک معمولی سی مٹی کے چراغ کو یوں دل سمجھ کر سنبھال سنبھال کر رکھتی رہی۔
اور آج اس کے ٹوٹ جانے سے یوں اداس ہوں جیسے ساری خوشیوں ہی سے میرا ناطہ ٹوٹ گیا ہے ۔ شاید یہ بات ہو آفتاب کہ اس دن تم نے ہنسی ہی ہنسی میں بہت گہری بات کہہ دی تھی:
"شمع اسے سنبھال کر رکھنا، جس دن یہ بجھا، سمجھو اپنی محبت بھی بجھ گئی۔”
وہ دیوالی کی رات تھی۔ تمہیں تو یاد بھی نہ ہوگا (اور میری تو زندگی ہی محض یاد ہے) گھر کے بچے پڑوسیوں کی دیکھا دیکھی مٹی کے چھوٹے چھوٹے دئیے کہیں سے لے آٗے تھے اور چاندی کی منڈیروں پر قطار در قطار بہت سارے دئیے جلاکر رکھ دئیے تھے ۔ ہم دونوں چاندنی پر آئے تو سب سے کونے والا دیا بجھا پڑا تھا۔
"ہائے غریب کا کوئی پرسان حال نہیں۔”
میں نے لرز کر کہا اور اسے ساتھ والے دئیے سے جلانے کو جھکی ہی تھی کہ تم نے ہنس کر کہا:
"آج دئیے سے زیادہ کوئی خوش نصیب نہیں ہے ۔”
میں نے بوکھلا کر تمہیں دیکھا تو تم اس جگمگاتی ہنسی کے ساتھ بولے تھے۔
"ہاں جسے تم چھولو۔”
میں نے تمہاری بات کاٹ کر پوچھا:
"اور جسے تم چھولو؟”
دیا میرے ہاتھ میں کانپ رہا تھا ۔ جل مل، جھل مل۔
مجھے نہیں معلوم لیکن یقیناً میرے چہرے پر اس دئیے کی لو جاگی ہوگی۔ یقینا اس کے عکس نے میرے چہرے کو وہ جلا بخشی ہوگی کہ تم میری تمنا کر سکو ، اسی لئے تم نے کہا تھا:
"شمع! میں ساری زندگی تمہاری تمنا کرتا رہوں گا۔”
میرا ہاتھ کانپا، یقیناً دیا گر جاتا اگر تم میرا ہاتھ نہ تھام لیتے وہ ہاتھ جو پھر تم نے کبھی نہ تھاما اور تم نے جذبات سے بھری اور بھرائی آواز میں کہا:
"شمع! اس مٹی کے چراغ کو میں اپنی محبت کا امین بنا لوں؟”
میں وہموں کی ماری، عورت پن کی ساری کمزوریوں سمیت تمہاری طرف تکنے لگی ، نہ جانے اب تم کیا کہو؟ اور تم نے دھیرے سے کہا تھا:
"’شمع! اسے سنبھال کر رکھنا، جس دن یہ بجھا، سمجھو اپنی محبت بھی بجھ گئی۔”

میرا دل دھڑ دھڑ کر نے لگا۔ محبت کا یہ کون سا انداز تھا کہ لے کے ایک چراغ کو تمام تر ذمہ داریاں سونپ دیں، لیکن میں نے کہا نا، میں وہموں کی ماری تھی۔
تمہارے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے لئے جیسے آسمانی صحیفہ ہوگئے ۔
مجھے سہما ہوا دیکھ کر تم ذرا مسکرائے تھے اور کہا تھا:
"اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو شمع؟”
میں ایک دم بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی:
"تم نے کیسی زنجیر میں جکڑ دیا ہے آفتاب! چراغ تو چراغ ہی ہوتا ہے کبھی ایک جھونکے سے بھی بجھ سکتا ہے ۔ اب تو ہر لمحہ میرا دل رہ رہ کر دھڑکے گا۔ اللہ نہ کرے ۔۔۔ اللہ نہ کرے جو یہ بجھے۔ اور جو کبھی ہوا کا کوئی سرکش اور حاسد جھونکا، میرے آنچل سے نظر بچا کر اسے بجھا ہی دے تو میں کہاں جی سکوں گی؟”
تم کتنی اعتماد سے بھری ہنسی ہنسے تھے ۔
"تو تم اتنی سیریس ہوگئیں شمع! کیا مٹی کا یہ حقیر سا دیا میری محبت پر بھاری ہو سکتا ہے؟”
"بات مٹی اور کانچ کی نہیں آفتاب، بات تو اعتقاد اور رواجوں کی ہوتی ہے ، کانچ کی چوڑیوں میں کیا دھرا ہوتا ہے؟
لیکن کسی کے نام کے ساتھ جب ایک نئی بیاہتا کو پہنائی جاتی ہیں تو اس کی زندگی کا مول ہو جاتی ہیں اور پھر وہ ساری زندگی اسی کے اپنے انگ کا ایک حصہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ تم نے یونہی ایک بات کہہ دی، لیکن میں تو مٹ کر رہ گئی آفتاب!”

پھر وہ رات کبھی نہ آئی، جب ہم ساتھ ساتھ چاندنی پر جاتے۔
میں چراغ جلاتی ، تم میری تمنا کرتے اورمیں تمہاری وفاؤں پر بھروسہ کرتی۔ بس زندگی جیسے سمٹ کر آنچل کی اوٹ میں آگئی۔ میں نے اپنے کمرے کے ایک محفوظ طاقچے میں وہ چراغ اٹھا کر رکھ دیا۔
اور زندگی اس جتن میں گزرنے لگی کہ محبت کا وہ شعلہ کبھی بجھ نہ جائے ، میرا بھولا پن دیکھا۔ مارے وہم کے ایک ساتھ دو دوبتیاں روئی کی بناکر اس میں ڈال دیتی کہ ایسا نہ ہو کہ ہوا اسے کمزور پاکر بجھا ہی دے۔
ہر روز میں تیل ڈالتی ،میں تو اپنا خون بھی اس میں ڈال دیتی اگر مجھے یقین ہو جاتا کہ اس طرح محبت کے چراغ دل کے خون سے امر ہو جاتے ہیں۔
سب میں اس چراغ کا چرچا ہو گیا۔ میری سہیلیاں مجھ پر ہنستیں۔
"ارے دیکھو یہ زرتشتیوں کی طرح دن رات چراغ جلائے رہتی ہے”۔
دو ایک نے تو ٹوہ لینے کی کوشش کی لیکن جس طرح منہ بند کلی کی خوشبو اسی کے تن میں چھپی رہتی ہے، ایسے ہی اپنی محبت کا راز میں نے بھی اپنے تن من میں ہی رکھا تھا۔
زمانہ بہت حاسد ہے، کون جانے کس کا دل کب پلٹ جائے، اور بعض ہوائیں اتنی سرکش اور منہ زور ہوتی ہیں۔
اورمیری محبت کا چراغ تو اتنا ننھا سا ہے۔
منزل سامنے ہو تو راستے کی کٹھنائیاں ہیچ ہوجاتی ہیں۔ میری منزل تو میرے سامنے تھی، مجھے کس بات کا ڈر تھا، کانٹوں سے میں کبھی نہ ڈری، پاؤں کے چھالوں نے مجھے ہراساں نہیں کیا ۔
قدم قدم ، لمحہ لمحہ، بڑھتے ہوئے حوصلوں کو زمانے کے ظلم بھی نہ پیس سکے ۔ حالانکہ میری زندگی ہی کیا تھی۔
غریب سی لڑکی جس نے ماں کا سکھ دیکھا نہ باپ کی محبت۔ خالہ کے رحم و کرم کے سہارے جس نے جینا سیکھا۔ دو وقت کی روٹی اور تن بھر کپڑا ، جہاں زندگی کی معراج تھی اور وقت گزارنے کے لئے جہاں ڈھیروں کام تھے۔
گھر بھر کے میلے کپڑوں کے انبار، باورچی خانے میں جھوٹے برتنوں کے ڈھیر، جھاڑنے کے لئے بڑے بڑے آنگن ، صفائی کے لئے چھوٹے بڑے کمرے اور خدمت بجا لانے کے لئے چھوٹے بڑے گھر بھر کے کئی کئی آقا، ، لیکن پیار کی ایک نگاہ، محبت کا ایک ان کہا بول، مٹی کا ایک چھوٹا سا دیا، یہ سب تیز جھلستی ہوئی دھوپ کو کیسے خنک چھاؤں سے بدل دیتے ہیں؟
اس دن دوپہر میں سب کو کھلا پلا کر ہر کام سے نبٹ کر جب میں اپنے بستر پر لیٹی تو پتہ نہیں کیا ہو ا گھر بھر کے بچے آکر میرے سر ہو گئے۔
"بجیا! پلیز کہانی سنائیے۔”
"ہائے اللہ کہانی؟ اور وہ بھی دن میں، نہیں نہیں ایسے تو مسافر راہ بھٹک جاتے ہیں”۔ میں نے گھبرا کر کہا۔
"نہیں باجی! آج بڑے چچا آگئے ہیں، وہ ہمیں سر شام ہی بستروں میں گھسا دیتے ہیں کہ بچوں کو جلدی سو جانا چاہئے۔ تو آج ہمیں آپ دن میں ہی کہانی سنا دیجئے”۔
سب کاموں سے نبٹ کر، یہ میرا تو آخری کام ہوتا تھا۔ کہ رات میں سب بچوں کو کہانیاں کہہ کر سلاؤں ، دن میں کہانیاں مجھ سے کبھی نہ کہی گئیں۔
میں نے سنا تھا کہ دن میں کہانیاں کہو تو مسافر راستے بھول جاتے ہیں ، راہ بھٹک جاتے ہیں۔
میں وہموں کی ماری، میرا دل یہ سوچ کر ٹوٹا کرتا ، اللہ جانے کون کس ارادے سے کس راہ جانا چاہتے اور راستہ بھول بیٹھے، میں کیوں کسی کی منزل کھوٹی کروں؟
لیکن اس دوپہر بچوں نے مجھے دم نہ لینے دیا، میری ایک نہ چلنے دی۔
"دیکھئے آپی! اگر آپ نے کہانی نہ سنائی تو ہم آفتاب بھیا کو کہہ دیں گے”۔
تم گھر کے سب سے بڑے تھے ، سب تمہارا نام لے کر ایک دوسرے کو ڈرایا کرتے ۔
"آفتاب بھیا!!”
میں تمہارا نام دل ہی دل میں گنگنا کر بولی۔
میرے خدا! یہ کس کا نام میری زبان پر ہے اور میں جیسے سب کچھ بھول کر کہانی سنانے لگی ۔
کسی شہزادے شہزادی کی نہیں، اس بستی دنیا کی میری تمہاری۔
لیکن آفتاب! میں نے دیکھ لیا، کہنے والے غلط نہیں کہا کرتے ، دن میں کہانیاں سنانے سے مسافر سچ مچ راستہ بھول جاتے ہیں۔
میں نے دن میں کہانی سنانے کی جو غلطی کی، اس کا بھگتان آج تک بھگتا رہی ہوں۔ سوچتی ہوں، یہ کہانی میں نے شروع ہی کیوں کی تھی۔
اور پھر یہ ہوا کہ دم بہ دم اس چراغ کی لو نیچی ہوتی گئی۔ پھر بھی اسے جلانے اور جلانے کی اپنی سی کوشش کئے گئی۔ لیکن دل کا لہو بھی کام نہ آیا۔

آج دل کو تھوڑی بہت تسکین، بس بیتے دنوں کو یاد کرنے سے مل رہی ہے ۔
شاید آج کے بعد ان دنوں کو کبھی یاد بھی نہ کر سکوں ۔ یہ کیسی عجیب بات تھی۔
آفتاب! کہ زندگی میں تم نے کبھی کھلے عام اپنی محبت کا اعتراف کیا ، نہ کونے کھدروں میں سرگوشیاں ہی کیں۔
نگاہیں! صرف وہ تمہاری بولتی ہوئی، مسکراتی ہوئی عہد و پیماں کرتی ہوئی، ساری دشواریوں کو پیس ڈالنے کے بلند بانگ دعوے کرتی ہوئی نگاہیں ہی تو تھیں ،جنہوں نے مجھے تمہاری محبت کا یقین دلایا۔
مجھے آج بھی تمہارے ان جذبات پر ناز ہے کہ تم نے کبھی سطحی پن کا مظاہرہ نہیں کیا۔
سمندر کی وسیع ذات کی طرح تہ ہی تہ میں تمہاری محبت کی کار فرمائیاں تھیں۔ سطح خاموش ، پر سکون۔
کوئی کیسے سمجھ سکتا ہے کہ تم ایک غریب سی بد نصیب سی لڑکی سے اتنا بھرپور یار کرتے ہو۔ یہ تو صرف میں تھی جو تمہاری محبت کی رازدار تھی۔
چند لمحے میری زندگی کا حاصل ہیں، کیسے گہرا ییار چھلک پڑتا ہے ، کبھی کبھی چھوٹی چھوٹی باتوں سے۔
اندھیری رات میں ایک بار سیڑھیاں چڑھ رہی تھی ، تم اتر رہے تھے۔
میں چاپ سن کر ہی سمجھ گئی یہ تم ہو، میں نے سوچا اللہ نہ کرے ، تم کہیں گرنہ جاؤ اسی لئے میں نے ذرا جھک کر کہا تھا:
"ذرا سنبھل کر ۔۔۔”
تم نے جگمگاتی آواز میں جواب دیا تھا:
"تمہارے چہرے کا چاند جو ساتھ ہے”۔
ایک تیز دھوپ والی دوپہر میں تم باہر سے آئے تو میرا دل رو اٹھا۔
"ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھو لیجئے ، کیسی سخت دھوپ سے آپ ہو کر آئے ہیں”۔
"دھوپ۔۔۔؟”
تم نے مسکرا کر کہا تھا۔
"میں جدھر جاتا ہوں ، تمہاری ان لانبی لانبی زلفوں کا سایہ مجھ پر چلتا جاتا ہے”۔

ایک چاندنی رات۔
چاند کے بھرپور حسن کے مقابل تم نے میرا حقیر وجود کھڑا کیا تھا اور اپنی جوان سانسوں اور مضبوط ہاتھوں کے ساتھ میرے قریب تر ہو کر مجھے چھو کر کہا تھا:
"چاند میں اتنا نور کہاں ہے؟”
میرے وہموں کے ساتھ ساتھ زندگی میں قدم قدم پر کیسے بھرپور بھروسے تھے!
آج بھی تو چہرے کا وہی چاند ہے ، زلفوں کا وہی عطر بیز اور ٹھنڈی گھٹائیں ہیں۔
آنکھوں کے انتظار میں بسے ہوئے، ڈوبے ہوئے دئیے ہیں لیکن تم نہیں ہو ۔ اور تم کیا جانو، صرف تمہارے نہ ہونے سے ان زندگی کا کیا رنگ ہے؟
میں سوچتی ہوں آفتاب! لکڑیاں کتنی خوش نصیب ہوتی ہیں کہ دھواں دھواں ہوکر راکھ ہو سکتی ہیں، ہوجاتی ہیں۔
میں پاپن تو دھواں بنی راکھ جلی۔
لمحے لمحے کی سنگ دل واردات میرے دل سے پوچھو اور یہ دیکھو میں بھی کیسی سخت جان تھی جو زندہ رہی، زندہ ہوں۔

وہ دن میں کبھی نہیں بھول سکتی۔
تم بے حد شادماں ، بشاش اور بہت گہرے عزم سے میرے پاس آئے اور بولے ۔
"شمع! زندگی کتنی خوبصورت ہے لیکن اس سے بھی زیادہ ایک اور چیز خوبصورت ہے، پیسہ!”
میں سر سے پاؤں تک لرز گئی اور بری طرح چونک کر تمہیں دیکھنے لگی۔
تم اک دم شفاف سی، بے داغ سی ہنسی ہنس پڑے۔
"گھبرا گئیں ؟ میں صرف یہ کہہ رہا تھا شمع، اب زندگی اس مقام پر آگئی ہے کہ میں چاہوں تو خوشی سے تمہیں اپنا لوں، مجھے بھلا کون روکے گا؟
لیکن میں چاہتا ہوں کہ ہم نے جو زندگی میں اب تک صرف دکھ اٹھائے ہیں، غریبی ہی دیکھی ہے تو اب اس راستے کو چھوڑ کر ایک نیا راستہ اپنائیں جہاں خوشی ہو، محبت ہو اور زندگی کا ہر عیش بھی ہو۔۔۔”
میں بے حد سہمے دل کے ساتھ سنتی رہی تھی۔
"شمع! پہلے میں ذرا اپنی لائف بنا لوں، میرامطلب ہے کچھ پیسہ جمع کرلوں، کار وار خرید لوں، پھر ٹھاٹھ سے تمہیں بیاہ لے جاؤں ، تمہیں بھی تو زندگی کا کچھ حسن ملے”۔
تمہاری محبت کے بدلے شاید میں نے اپنی زبان رہن رکھ دی تھی، کبھی تمہارے سامنے ہونٹ نہ ہلا پائی تھی۔ لیکن جیسے میر ا رواں رواں چیخ اٹھا۔
"مجھے پیسہ نہیں چاہئے آفتاب! مجھے دولت کی ہوس نہیں ہے، مجھے اپنے پیارے ہاتھوں کے ہار پہنا دو ، اپنے گرم گرم ہونٹوں کا ٹیکہ میرے ماتھے پر سجا دو ، میرے سہاگ اور محبت کی بس اتنی ہی مانگ ہے”۔

لیکن میں کہا نا کہ میں نے تمہارے آگے صرف اپنی آنکھیں جھکانا ہی سیکھا تھا اور تم چلے گئے۔
یوں کہنے اور سننے میں کتنی معمولی سی بات لگتی ہے کہ ایک شخص کو جانا تھا اور وہ چلا گیا۔
لیکن یہ میں نے انہی دنوں جانا کہ جگمگاتا چاند تاریک کیوں کر ہو جاتا ہے ۔ پھول اپنا حسن کیسے کھو دیتا ہے ، بہاریں خزاؤں سے کیسے بدل جاتی ہیں۔
اور دھیرے دھیرے ہنسنے مسکرانے والے ہونٹ اپنی مسکراہٹیں، آنسوؤں کو کیسے تج دیتے ہیں؟

اور تم سے یہ بتادوں آفتاب! کہ تم نے میری آنکھوں کے لئے جو ایک بہت پیاری اور انوکھی سی تشبیہ دی تھی کہ میری آنکھیں دیکھو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے سچے ہیرے، جگر مگر کرتے ہیرے۔ اللہ میاں نے کوٹ کر یہ آنکھیں بنائی ہیں۔ تو وہی آنکھیں اپنی جگمگاہٹ کھوکر جیسے دو بجھے ہوئے چراغ بن کر رہ گئیں۔

جہاں حوصلہ ہو وہاں ارادے بھی ساتھ دیتے ہیں۔ تمہارے بے پناہ حوصلوں نے تمہیں کامیابی سے ہمکنار کر دیا۔ آج یہاں کل وہاں ، تمہارا بزنس پھیلتا چلا گیا۔ تم امیر سے امیر تر ہوتے چلے گئے۔
خوبصورت کوٹھی، فون، فرج، نوکر چاکر اور گاڑیاں تو یوں بدلے جانے لگیں جیسے کوئی کپڑے بدلتا ہے ۔
میں بھی سب کے ساتھ نئی کوٹھی میں اٹھ آئی تھی ۔ ایسی زندگی جس کا تصور انسان خوابوں میں ہی کر سکتا ہے ، اب سبھی کا اور میرا مقدر تھی۔
(لیکن تم کہاں تھے؟)
دولت آئی تو زندگیوں میں مغربیت دخیل ہونے لگی۔ لیکن میں جس مقام پر تھی وہیں رہی ۔ سورج مکھی کے معصوم اور نادان پھول کی طرح جو سدا سورج ہی کی طرف تکتا رہتا ہے ۔
ایک رات سب لوگ کسی پارٹی میں گئے ہوئے تھے، فون کی گھنٹی اچانک بجنے لگی۔
میں ہی فون اٹھایا، تم تھے، دہلی سے بات کر رہے تھے۔
اتنی دور سے ، میرا دل لرز اٹھا۔
"ہیلو! میں آفتاب بول رہا ہوں، ادھر کون ہے؟”
میں ڈوبتے دل سے بولی۔
"میں۔۔۔ میں شمع ہوں۔”
"کیا کر رہی ہو؟”
"جل رہی ہوں۔”
ادھر سے ایک بھرپور ہنسی۔
"افوہ! تم تو ڈائیلاگ بول رہی ہو”۔
نہ جانے ایک ساتھ کتنے سارے آنسو میری آنکھوں میں امڈ پڑے۔ میں نے روکنے کی کوشش بھی نہیں کی۔
بنتے بگڑے جملوں کو میرے آنسوؤں نے بھگو بھگو دیا۔
"آفتاب! میں تمہارے بغیر زندہ ہیں رہ سکتی ، تم آتے ہو، پھر چلے جاتے ہو، پھر آتے ہو پھر چلے جاتے ہو۔
مجھ سے بات کرنے کا وقت تمہارے پاس نہیں ہوتا۔
یہ چہرہ آج بھی چاند ہے، آنکھیں آج بھی ہیروں کی طرح دمکتی ہیں ۔ زلفوں میں آج بھی ساون کی گھٹائیں جھومتی ہیں، لیکن تم کہاں ہو آفتاب؟”
ادھرسے فون کٹ ہو گیا۔
تیسرے دن پلین سے تم آئے۔
شوفر گاڑی لیکر ایرڈرم گیا تھا۔
تم نوابوں کی سی شان تمکنت کے ساتھ اترے۔ کچن کی ایک کھڑکی کاریڈور میں کھلتی تھی ، تم ادھر ادھر دیکھتے چلے آرہے تھے جیسے تم کسی کو ڈھونڈ رہے ہو،شاید تمہاری آنکھوں کو میری تلاش ہو؟
میں نے دکھے دل سے سوچا، لیکن تم اپ اپ کرتے ہوئے اوپر چلے گئے۔ شام کو میں پودوں میں پانی دے رہی تھی کہ تم باغ میں نکل آئے۔
"ارے شمع! تم؟ مالی کہا ہے؟ یہ تم کیا کرتی رہتی ہو ہمیشہ؟ کام کام اتنے سارے نوکر جو ہیں”۔
میں نے پہلی بار بے خوفی سے تمہاری آنکھوں میں جھانکا۔
"آفتاب! سبھی پھول ایسے تو نہیں ہوتے ہیں جومالی کے ہاتھوں کھل سکیں۔”
ایک دم تم چونکے۔
"تم آج کل بہت ڈائیلاگ بولتی ہو۔ ایں اور بھئی اس دن ٹرنک کال پر تم یہ کیا نادانی کرنے لگیں؟ کوئی ایسے رویا کرتا ہے؟ میں نے گھبرا کر ریسیور ہی رکھ دیا”۔
میں کچھ نہ بولی۔
پودوں میں پانی ڈالتی رہی۔
لڑکیاں بہت احمق ہوتی ہیں، زندگی بھر محبت کے پودوں میں امیدوں کا پانی ڈالتی رہتی ہیں۔
اور میں بھی توایک لڑکی ہی تھی، سب لڑکیاں جیسی بلکہ ان سے کچھ زیادہ ہی نادان۔
اور مجھے اس دن پر حیرت ہے جب میں اتنی بے باک ہوگئی تھی کہ تمہارے مقابلے پر آکھڑی ہوئی تھی۔ یہ تمہارا احسان تھا یا ظلم، پتہ نہیں۔
بہر حال تم نے مجھے نئے کپڑوں اور زیوروں سے لاد دیا تھا۔
سبھی سے تمہارا یہ مطالبہ تھا کہ گوندنی کے پیڑ کی طرح زیوروں سے لدی رہیں۔ تم کسی کام سے اندر آئے تو تھے تو بڑی لپک جھپک کے، لیکن مجھے دیکھ کر ٹھٹک سے گئے۔
"شمع! یہ دوپٹہ؟”
میں نے تمہاری بات کاٹ دی۔
"اسے میرا مقدر سمجھ لو، سیاہ ، تاریک، اور ان ستاروں کو آنسو، شاید یہ نشانی تمہیں کچھ سوچنے پر اکسائے”۔
"تم کیسی باتیں کررہی ہو شمع!”
میں پھٹ پڑی۔
"آفتاب! مجھے مت آزماؤ، خدا کے لئے مجھے مت آزماؤ، میں گھٹ رہی ہوں، مر رہی ہوں، تمہیں کچھ احساس نہیں ہوتا۔”
آنسوؤں نے میرا گلہ رندھا دیا۔
"آج میں تم سے تمہیں کو مانگتی ہوں، بولو آفتاب! جب اللہ نے تمہیں دنیا جہان کی نعمتوں سے نواز دیاہے تو مجھے کیوں ٹال رہے ہو؟”
"پاگل نہ بنو شمع ، میں تمہیں ٹال وال نہیں رہا ہوں بھئی۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ ابھی میرے سامنے اتنے پروگرام ہیں کہ میں خود گڑ بڑا گیا ہوں۔
دیکھو! پندرہ دن بعد مجھے لندن جانا ہے ، وہاں سے لوٹوں تو شاید کئی دنوں کے لئے دہلی جانا پڑ جائے، اگلے چھ مہینوں میں مجھے پیرس ، ہانگ کانگ”۔
میں نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ، میں چیخ اٹھی۔
"آفتاب! سونے کے مت بن جاؤ۔ خدا کے لئے گوشت پوشت کے ہی رہو۔”
گھر کے لڑکے کاریں اڑائے پھرتے، لڑکیاں نئے نئے فیشن کے کپڑوں اور زیوروں سے سجی بنی کوٹھی پر اپنی سہیلیوں اور دوستوں کے ساتھ ہنگامہ مچائے رکھتیں۔
اور تم جو ان دنوں نعوذ باللہ سب کے پالن پار بنے ہوئے تھے۔ یہ سب دیکھ دیکھ کر کوش ہوتے رہتے کہ سب لائف کو کس قدر انجوائے کر رہے ہیں۔
اور یہ دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہتے کہ میں اتنی خوشیوں کے باوجود کس طرح ، بے طرح اداس رہتی ہوں، پہننے اوڑھنے سے مجھے رغبت نہیں، گھومنے پھرنے کا شوق نہیں آنے جانے میں دل نہیں لگتا، محفلوں سے بھاگتی ہوں۔
میں کیا کرتی آفتاب! میرا تو دل ہی جیسے مردہ ہو گیا تھا۔

تم سچ مچ آفتاب بن کر رہ گئے تھے ۔ جسے ہر لمحہ دیکھ تو سکتے ہیں ، ہاتھ بڑھا کر چھو نہیں سکتے۔ اپنا نہیں سکتے۔
اس دن تم کلکتہ سے آئے ہوئے تھے ، تم نے اپنے دوستوں کو ایک پارٹی دے ڈالی۔
اتنظام تو میں نے ہی کرنا تھا۔ سو کر دیا ، لیکن ان ہنگاموں سے مجھے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی؟ تم نے مجھے جتا دیا تھا:
"دیکھو شمع! خدا کے لئے آج ذرا اچھے کپڑے پہننا اور خوبصورت ، خیر وہ تو تم نظر آؤ گی ہی!”
میں نے بےحد بےدلی سے وہ جوڑا پہن لیا جس سے میری دیرینہ یادیں وابستہ تھیں ، جن دنوں تم غریب تھے لیکن میرے تھے ۔
سیاہ شلوار ، سیاہ قمیض ، اور سیاہ دوپٹہ، جس پر ستارے ٹنکے ہوئے ۔
انسان بنے رہو کہ میں تمہیں پا بھی سکوں ۔ چھو بھی سکوں، اور چھوؤں تو احساس بھی کرسکوں کہ میں نے محبت اور پیار سے بھرپور دل کو، جسم کو چھوا ہے ۔ یہ احساس نہ ہو کہ میں نے ایک سونے کے مجسمے کو محبت دی ہے ۔
تم ہکابکا رہ گئے ۔
شاید تمہیں توقع نہ تھی کہ میں جو سدا ایک گونگی کے کردار میں تمہارے ڈرامے میں پارٹ کرتی رہی، یوں بول بھی سکوں گی۔
میں اچانک دیوانوں کی طرح اٹھی اور اونچے کارنس پر سے وہ ننھا منا چراغ اٹھا لائی جو میری امیدوں کی طرح رہ رہ کر ٹمٹما رہا تھا۔
"اسے پھونک مار کر بجھا دو آفتاب! اب میں زندگی سے ہار گئی ہوں ، مجھ میں وہ حوصلہ نہیں کہ اسے میں دل کا خون بھی دے کر زندہ رکھ سکوں۔”
تم نے چراغ کوبے معنی نظروں سے دیکھا، اسے بجھایا نہیں (لیکن جلایابھی نہیں)
اس رات کی پارٹی کی ایک بات مجھے یاد رہ گئی ہے۔ تم نے اپنے دوستوں سے ہم سب بہن بھائیوں سے تعارف کرایا تھا اور تمہارے ہی ٹکر کے ایک بزنس مین دوست اسلم نے مجھ سے ہاتھ ملاتے وقت بے حد شدید حیرت اور سچائی کے ساتھ کہا تھا:
"یار آفتاب! کیا بے وقوفی تھی ، آج کے دن تک یہی سمجھتا رہا تھا کہ حوریں مرنے کے بعد ہی ملیں گی”۔
پھر چند دنوں بعد خالہ امی نے میرے سامنے ایک عجیب و غریب "بات” پیش کی۔
"بیٹی! تم جانتی ہو، آفتاب کتنا روشن خیال لڑکا ہے ۔اس نے اپنی بہنوں کو بھی بے جا پابندیوں سے دور رکھا ہے اور تمہیں بھی وہ اپنی بہنوں کی طرح ہر عیش و آرام مہیا کرنا چاہتا ہے۔ اسلم آفتاب کا بہت گہرا ، بہت پیارا دوست ہے ۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ اس نے تمہیں بے حد پسند کیا ہے ۔ وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے”۔
وہ کچھ ٹھہر کر بولیں۔
"ہم سب اور خاص طور سے آفتاب اس رشتے سے بے حد خوش ہیں”۔

اس کے بعد تو سننے کے لئے کچھ بھی نہ رہ گیا۔
میں اس اصول کی قائل ہوں کہ محبت ایسا جذبہ ہے جو زبردستی کسی سے نہیں جوڑا جا سکتا ۔ جب تمہیں نے مجھے ٹھکرا دیا تو میں تمہارے سامنے اس گھر میں رہ کر کیا کرلیتی؟
میں تو بہرحال ایک بوجھ تھی ، جو کسی نہ کسی سر پر لاد دیا جاتا۔ میں نے ہاں، نہ کچھ بھی نہ کہا، بس اپنا سر جھکالیا۔ اب میں سر اٹھا کر جی بھی کیسے سکتی تھی؟
لیکن یہ کیا دکھ ہے آفتاب! جو جی سے جاتا ہی نہیں، میں کہانیاں پڑھتی تھی، جن میں ہمیشہ دو محبت کرنے والوں کے بیچ زمانہ، سماج یا کوئی رقیب آڑے آ جاتا تھا۔

محبت اسی لئے سدا مثلث سے تعبیر کی جاتی رہی ہے ۔ لیکن میرے نصیب میں یہ کیسا غم لکھا تھا کہ نہ کوئی سماج میرے لئے دیوار بنا، نہ زمانے نے اڑچن ڈالی، نہ کوئی رقیب ہی پیدا ہوا۔ تمہی میرے سب کچھ تھے اور تمہی نے مجھے بھری بہار میں لوٹ لیا۔
تمہی نے سہاگ کی بندیا میرے ماتھے پر سجائی اور تمہی نے مٹا دی۔ جیون مرن کا سارا کھیل تمہارے ہی ہاتھوں انجام کو پہنچا۔

میں جب بیاہ کر نئے گھر آئی تو وہ دیا اپنے ساتھ ہی اٹھا لائی ، اسلم نے دیکھا میں دئیے کی ایسی دیوانی ہوں تو اس نے میرے گھر کو سدا دیوالی کا رو پ دے دیا۔
ننھے منے رنگین ، یہاں سے وہاں تک سارے لان میں ،درختوں میں ، حد یہ کہ ننھے منے پودوں میں لگوا دئیے۔
"تمہیں اجالوں سے پیار ہے اور مجھے تم سے”۔
اور اس نے محبت سے سرشار ہو کر بےحد عام شوہروں والی ہزار بار کہی بات دہرائی۔
"جان! یہ حقیر قمقمے ہیں، تم کہو تو میں آسمان کے سارے جگمگاتے ستارے توڑکر تمہارے آنچل میں ڈال دوں”۔

اسلم بے چارے کو نہیں معلوم آفتاب ! کہ جن ستاروں کو توڑ لانے کا جتن وہ کرتا رہتا ہے وہ آج سے سالوں پہلے تم نے چن چن کر میری آنکھوں میں بسا دئیے ہیں۔
مجھے اسلم پر کیسا ترس آتا ہے ۔
اس بے چارے نے کیا قصور کیا ہے کہ اسے محبت سے محروم زندگی ملے ۔
اور پھر اتنا ٹوٹ کر چاہنے والا شوہر۔
اسی لئے۔
آج میں نے اپنے ہاتھوں سے اس مٹی کے دئیے کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا۔
میں ان یادوں کے لئے کیوں اپنا جیون برباد کروں ، جو مجھے خوشی کا ایک لمحہ بھی نہیں دے سکتیں۔
لیکن صبح سے اب تک میں ایک لمحہ کو بھی سکون نہیں پاسکی ہوں۔
اور آنسو تو۔۔۔۔
یوں ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہیں جیسے ساری دنیا بہا لے جائیں گے ۔
دل کی دکھن کا یہ عالم ہے جیسے چھالے تپ رہے ہوں۔
بے پناہ خوشیوں ، محبت کرنے والے ساتھی اور رنگین بہاروں میں گھری ہونے کے باوجود جیسے میری روح ترس ترس کر کراہتی ہے۔
میں تنہا ہوں۔
میں اکیلی ہوں، میں اکیلی ہوں۔

واجدہ تبسم

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ڈاکٹر محمد زاہد کی اردو تحریر