- Advertisement -

راضی

ماہین سرور کا اردو کالم

راضی

اس دنیا میں رہ کر میں نے صرف اتنا جانا ہے کے واقعی اس جہاں میں سب کچھ دھوکا ہے ہم انسان لألچی ہے ہماری مانگیں اتنی بڑی بڑی ہے ایک چیز ملتے ہی دوسری کی طلب کر بٹھتے ہیں۔ پہلی چیز کا شکر کرنے کے بجاۓ دوسری چیز نا ملنے پر روتے ہیں۔ جبکہ ہمیں یہ بھی نہیں پتا ہمارا رب ہم سے راضی ہے بھی یہ نہیں۔۔ اگر ہمارا رب ہم سے راضی ہی نہیں ہے تو ایسی دنیا میں رہنے کا مطلب اپنے آپ کو دوزخ کی طرف لے جانا ہے اگر ہمیں لگتا ہے ہم سکون میں ہے اور دل یہ بھی کہہ رہا یے۔۔۔یعنی رب راضی نہیں ہے مجھ سے یا ناراض ہے مجھ سے شاید۔۔۔۔ میں پھر بھی سکون میں ہوں ہر چیز ضرورت سے زیادہ میسر ہے۔۔ ایسا کیوں؟۔تو سنو وہ رب ہم سب کا رب ہے۔۔۔ اس کا بندا چاہے نیک ہو یا بد وہ اپنے بندے کو بھوکا بےسکون بے سہارا نہیں چھوڑتا ۔۔ وہ سنتا ہے اپنے ہر بندے کی پکار۔۔ پس وہ چاہے جس کو نیک راستہ پر چلأدے۔۔۔
جب رب انسان سے راضی ہوجاتا ہے نا۔۔ تو انسان سب سے پہلے دنیا کی طلب کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اگر مگر کی گنجاٸش نہیں رہتی۔ ہر حال میں رب کا شکر ادا کرتا ہے۔ دل نرم پڑجاتا ہے۔ پھر اس انسان کو نہیں فکر سارا جہاں اس کہ بارے میں کیا کہتا ہے۔ رب اس کا بیڑا پار لگا دیتا ہے۔ اس دنیا لے کر جنت مقرر کر دیتا ہے۔ اپنے پسندیدا بندوں میں شامل کر لیتا ہے اور پھر رب العزت انسان کو ایسا سکون عطا فرماتا یے اگر انسان تکلیف میں بھی ہو وہ سکون سارا درد کھینچ لیتا ہے رب کو راضی کریں ۔۔رب کا راضی ہونا رب کو پالینا ہے ۔۔ اگر ہمارا رب ہم سے راضی ہوجاتا ہے اس کا یہ مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہر چیز ہمیں فورأ ملنے لگے ۔یہ ہم دنیا کی عزت دولت وشہورت مانگنے لگے ۔۔۔۔۔ ہمیں خود محسوس کرنا چاہیے کیا ہم مطلبی تو نہیں؟ بے شک ہمارے مانگنے سے رب کہ خزانہ میں کوٸ کمی نہیں آۓ گی نا ہمارا رب ہمیں مطلبی سمجھے گا ۔۔ہمیں خود سوچنا چاہیے کیوں نا رب کو راضی کرنے کے بعد ہمارا ہر سجدا رب سے محبت میں ہو۔۔ نا کہ خود کہ غرض میں۔۔۔۔ نا ہی رب کو راضی کر کے دنیا مانگیں ۔یہ تو ہماری بے عقلی ہےنا۔۔۔۔ کہ ہم اپنی عبادات ضاٸع کر رہیں ہیں وہ تو ہر چیز دینے پر قادر ہے اگر وہ پاک زات ہمارے نام پوری دنیا بھی کر دے تو بھی اس کے خزانہ میں کوٸ کمی نہیں آۓ گی وہ پھر بھی اپنے بندے سے پوچھتا ہے ۔۔بتا اور کیا چاہیے تھجے۔ دنیا کو حاصل کرنا عقلمندی نہیں ہے رب کو پانا عقلمندی یے۔۔۔۔۔ جب رب مل جاۓ گا تو ہمیں اپنے ہر ایک گناھ کا احساس ہونے لگے گا پھر ہم اپنے ہر ایک گناہ کی معافی کہ طلب گار ہو جاۓ گے ہم بے حد گھنہگار سہی لیکن میرے رب نے مھجے معاف کردیگا وہ مجھ سے اب راضی ہو جاۓ گا ایسا ہر وقت سوچیں گے تو بس پھر آپ اللہ کہ ہو جاۓ گے اور دنیاوی خواہشیں ختم کردے گے۔ دولت کی حواس مٹا دے گے۔ دنیا فانی ہے یہاں کا سامان یہی رہ جانا ہے کب تک اس دنیا میں گلچرے اڑاٸیں گے ہم ؟ کیا ہمیں مرنا نہیں ہے۔ کیا ہم اس دنیا میں ایسے ہی دندناتے بے خوف پھریں گے۔۔ یاد رکھے ایک نا ایک دن مرنا ہے موت ضرور آۓ گی۔ اور آپ کا رشتہ منقطع کر کہ ” یعنی کاٹ کر “ نرم و آرام دہ گدیوں سے اٹھا کر مٹی میں سلادے گی۔ روشن دنیا سے نکال کر اندھیرے قبر میں پہنچا دے گی۔۔ پھر پچھتانے سے کچھ ہاتھ نہیں آۓ گا ابھی موقع دیا ہے رب نے۔ سانسیں چل رہی ہے۔ مہلت دی ہے۔ اپنے رب کو راضی کر لیں منالیں۔۔
اللہ عزوجل رحمت جب برسنے پر آۓ نہ تو یو بھی سبب بناتا ہے کہ کسی بھی ایک عمل کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرما دیتا یے۔ اور اس کہ باعث اس پر رحمتوں کی بارش کر دیتا ہے۔۔ اور اپنے بندے سے راضی ہوجاتا ہے۔ قرآن پاک میں مختلف مقامات پر بیان ہوا یے کے جو اچھے اعمال کریں گا ایسے جنت ملے گی چنانچہ اللہ تبارک وتعالی پارہ ٣٥ سورة البینہ کی آیت نمبر ٧ اور ٨ میں ارشاد فرماتا ہے۔۔۔
ان الذین امنواوعملو الصلحت اولیک ھمہ خیرالبریة٥ جزاوھمہ عند ربھمہ جنت عدن تجری من تحتھا الانھر خلدین فیھا ابدا رضی اللہ عنھمہ ورضوا عنھہ ذلک لمن خشی ربھ۔۔۔
ترجمہ۔۔۔۔بےشک جو ایمان لاۓ اور اچھے کام کیۓ وہی تمام مخلوق میں بہتر ہیں۔۔ ان کا صلہ ان کے رب کے پاس بسنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہیں۔ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں اللہ تعالی ان سے راضی اور وہ أس سے راضی۔۔۔۔ یہ أس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔للہ جل شانہ فرماتے ہیں۔۔بے شک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور وہ جلد بخشنے والا مہربان ہے۔ آپ صلی اللہ والہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔۔اللہ پاک بندے کی توبہ نزع طاری ہونے سے پہلے قبول کر لیتا ہے۔۔۔۔
اپنے رب کو راضی کریں رب کو راضی کر کہ دیکھیں دلی سکون آپ کے پاس ہوگا۔۔۔ ہماری ہر فضول خواہشیں اور دنیاوی طلب نے تو ایک دن ختم ہوجانا یے لیکن ہمارے رب سے محبت کا سفر مسلسل رہیں گا جس کی منزل آخرت میں خوبصورت اور سکون والی ہوگی ۔ مخلوق کو چھوڑ کر۔۔ رب کو پکارے رب تو انتظار میں ہے کب میرا بندے معافی مانگیں کب میں معاف کروں اور اپنے بندوں سے راضی ہو جاوں۔۔ اس لیے ہمیں صاف دل سے توبہ کرنی چاہیے تاکہ ہمارا رب ہمیں معاف کر کہ ہم سے راضی ہو جاۓ۔۔
مسکراتی حیا کھولیں آسماں کر نیچے۔
اک الگ سی کشش آگٸ مجھ میں۔۔
وہ رب مھجے غور سے سنتا ہے۔۔
ٕاس بات پر میں جھکا گٸ نظریں۔۔ میں کچھ مانگ ہی نا پاتی اس کی رضا کہ سوإ۔۔
ایک خوبصورت سا سکون مل گیا مھجے

ماھین سرور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
علامہ طالب جوہری کی اردو غزل