کوئی تدبیر نِکالی جائے
دِل میں خواہش ہی نہ پالی جائے
اب کے کُچھ طورِ شِکایت بدلے
اب کے پگڑی نہ اُچھالی جائے
یاس کی شب ہے ، سفر کی خاطِر
تابِ اُمّید بڑھا لی جائے
شرط یہ ہے مِرے قاتِل میری
کوئی بھی وار نہ خالی جائے
مُسکرا کر سرِ محفِل کیفی !
غم کی توقیر بچا لی جائے
محمود کیفی