کیف جنوں سے دیر و حرم بولنے لگے
ہم روبرو ہوئے تو صنم بولنے لگے
پہلے تو ناگوار تھیں ان کو خموشیاں
اب ان کو یہ گلہ ہے کہ ہم بولنے لگے
یا رب عطا ہو میرے بیاں کو وہ سرکشی
میں چپ رہوں تو میرا قلم بولنے لگے
پھر آئینے نے اپنے برابر کیا ہمیں
پھر ہنس کے اپنے آپ سے ہم بولنے لگے
دل کو زباں کی نوک پہ رکھتے تھے تم سعید
کیا فکر آ پڑی ہے جو کم بولنے لگے
سعید خان