جو سب عروجِ شوق کے تھے سلسلے کدھر گئے
وہ مستیاں کدھر گئیں ، وہ قہقہے کدھر گئے
ہمیں تو عہدِ ہجر کا نشان تک نہیں ملا
وہ بے رخی ، وہ جاں کنی ، وہ فاصلے کدھر گئے
یہ اشک کب رہا ہوۓ درونِ جاں کی قید سے
دریدہ دل! چٹان سے وہ حوصلے کدھر گئے
سبھی زبانیں کس لیے ہمارے حق میں ہو گئیں؟
ہمارے بارے جن کو تھے مغالطے ، کدھر گئے
کس اجنبی ڈگر پہ چل پڑی ہے عمرِ رائیگاں
جو تیرے گرد گھومتے تھے راستے کدھر گئے
بدل گئے ہیں حسن و عشق کے پرانے قاعدے
دل و نظر کے باحیا سے ضابطے کدھر گئے
کہاں سے اٹھ کے آگئے ہیں نفرتوں کے کارواں
مراسموں کے الفتوں کے قافلے کدھر گئے
دلوں سے کس لیے یقینِ حق اٹھا لیا گیا
وہ رب سے تھے جو ایک نس پہ رابطے کدھر گئے
ایمان ندیم ملک