جو بھی تیرے لیے بنی ہو گی
وہ پری کوہ قاف کی ہوگی
فاصلے درمیاں تھے پہلے سے
بات کیونکر بھلا بڑھی ہو گی
اس برس مضطرب خیالوں کی
رات شاید یہ آخری ہوگی
مصلحت گر تھی اپنے ملنے میں
پھر جدائی میں بھی رہی ہوگی
بیوگی اس کے سر جوانی میں
اک قیامت بھری گھڑی ہو گی
ضبط کی آخری حدوں پر ہوں
اب بمشکل ہی واپسی ہو گی
کنپٹی پر نشانہ باندھ کے وہ
کہتے ہیں گولی خود چلی ہوگی
جو مقابل ہوئے وڈیروں کے
ان کو تو مات ہو گئی ہو گی
ہار بیٹھا ہوں غم نہیں اس کا
کچھ کمی مجھ میں ہی رہی ہوگی
اس نے ڈالی جو الوداعی نظر
فارحہ خود ہی مر گئی ہو گی
فارحہ نوید