- Advertisement -

جنوں کا عبث میرے مذکور ہے

میر تقی میر کی ایک غزل

جنوں کا عبث میرے مذکور ہے
جوانی دوانی ہے مشہور ہے

کہو چشم خوں بار کو چشم تم
خدا جانے کب کا یہ ناسور ہے

فلک پر جو مہ ہے تو روشن ہے یہ
کہ منھ سے ترے نسبت دور ہے

گدا شاہ دونوں ہیں دل باختہ
عجب عشق بازی کا دستور ہے

قیامت ہے ہو گا جو رفع حجاب
نہ بے مصلحت یار مستور ہے

ہم اب ناتوانوں کو مرنا ہے صرف
نہیں وہ کہ جینا بھی منظور ہے

ستم میں ہماری قسم ہے تمھیں
کرو صرف جتنا کہ مقدور ہے

نیاز اپنا جس مرتبے میں ہے یاں
اسی مرتبے میں وہ مغرور ہے

ہوا حال بندے کا گو کچھ خراب
خدائی ابھی اس کی معمور ہے

گیا شاید اس شمع رو کا خیال
کہ اب میر کے منھ پہ کچھ نور ہے

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل