آپ کا سلاماردو غزلیاتڈاکٹر طارق قمرشعر و شاعری
جانے کس پیاس کا چہرہ ہے
ایک اردو غزل از ڈاکٹر طارق قمر
جانے کس پیاس کا چہرہ ہے مِری آنکھوں میں
رات دن ابر سا رہتا ہے مری آنکھوں میں
سونا چاہوں تو مجھے نیند نہیں آتی ہے
کون یہ جاگتا رہتا ہے مری آنکھوں میں
ڈرتا رہتا ہوں کہ بارش میں نہ بہہ جائے کہیں
اس نے اک گھر جو بنایا ہے مِری آنکھوں میں
اتنی آباد جدائی بھی کسے ملتی ہے
جاگتا میں ہوں وہ سوتا ہے مری آنکھوں میں
مل گئی اپنے سوالات کی تعبیر مجھے
کانپتا دستِ مسیحا ہے مری آنکھوں میں
کتنے صحراؤں کو سیراب کیا ہے میں نے
میں وہ پیاسا ہوں کہ دریا ہے مری آنکھوں میں
آج الزام لگاتا ہے مرے خوابوں پر
ایک مدّت تو وہ سویا ہے مری آنکھوں میں ۔
ایک صحرا کی کہانی ہے مرے ہونٹوں پر
ایک دریا کا فسانہ ہے مری آنکھوں میں
میں نظر اس سے ملاؤں بھی تو کیسے طارق ،
اس کے احسان کا سُرمہ ہے مری آنکھوں میں
ڈاکٹر طارق قمر