عشق و عاجزی کا ڈھب ہے علی کی عین میں
علم دو جہاں کا سب ہے علی کی عین میں
عقل کا ہر ایک ڈھب ہے علی کی عین میں
عدل کا نصاب جب ہے علی کی عین میں
حالتِ نماز میں تیر کی خبر نہ ہو
شانِ بندگی عجب ہے علی کی عین میں
میں علی علی کہوں عقل پاۓ وسعتیں
عاقلوں کی عقل جب ہے علی کی عین میں
بو تراب دل میں ہے جنگ کیسے ہارتے
کامرانی کا سبب ہے علی کی عین میں
تو ندانی شانِ او شان خود غلامِ او
عظمتِ علی غضب ہے علی کی عین میں
سید محمد وقیع