آپ کا سلاماردو تحاریراردو تقریبات

ہینڈ میڈ نظمیں

ڈاکٹر وحید احمد کی ایک اردو تحریر

ہمیں اجازت
نہیں ہے ہرگز
کہ کھڑکیوں سے دھوئیں کے پردے
ہٹا کے دیکھیں
ہوا سے لپٹیں
روایتوں کے، حکایتوں کے طلسم توڑیں
کواڑ حیرت سے تک رہے ہیں
مگر یہ ہمت نہیں کہ کھولیں
(نظم: وادی کا گیت)
زعیم رشید

قذافی سٹیڈیم لاہور کے پلاک (پنجاب انسٹیٹیوٹ آف لینگویج آرٹ اینڈ کلچر) آڈیٹوریم میں جواں سال شاعر زعیم رشید کے نظمیہ مجموعے "ہینڈ میڈ نظمیں” کی تقریب رونمائی 15 ستمبر 2024 کو ہوئی۔ تقریب کا اہتمام ادبی تنظیم "کارواں” نے کیا جس کے سرپرست عہد ساز شاعر اور ادیب جناب غلام حسین ساجد ہیں۔ ساجد صاحب کی ادبی خدمات سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ اس تنظیم کے روح رواں ممتاز تخلیق کار اور دانش ور جناب نوید صادق ہیں جن کی زیر سرکردگی اس پروقار تقریب کا انعقاد ہوا۔
"ہینڈ میڈ نظمیں” ۔۔۔۔۔۔۔ کیا اچھوتا نام ہے۔ فوری طور پر ہینڈ کتاب کھولنے کے لئے بڑھتا ہے۔ اور ایک سے ایک دلکش نظم پڑھنے کو ملتی ہے، روح عصر کی مہک لئے، جدید لفظیات سے مزین اور مضامین نو کی تازہ کاری سے روشن، چمکتی ہوئی۔
میں جس نسل سے تعلق رکھتا ہوں اس نے ہینڈ میڈ چیزوں کو خوب خوب دیکھا اور استعمال کیا ہے۔ بچپن میں میری ایک کزن مجھ سے بہت بڑی تھیں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ گول دہرے چوبی فریم پر ایک چوکور ریشمی کپڑا کس کر بہت محبت سے رنگارنگ کشیدہ کاری کر رہی ہیں۔ گلاب کے دو پھول ایک ساتھ جوڑ کر کاڑھے جا رہے ہیں۔ نیچے ایک نہایت دکھی اور انتہائی بے وزن شعر کشید ہو رہا ہے۔ کئی دن یہ دست کاری ہوتی رہی۔ میں نے بارہا پوچھا کہ یہ کشیدہ کاری کس کے لئے ہے۔ تو مجھے ڈانٹ دیتی تھیں۔ کچھ دن کے بعد وہی رومال میں نے اپنے ایک بھدے اور جانور نما کزن کے ہاتھ میں دیکھا تو مجھے دلی صدمہ ہوا۔
میری والدہ ہینڈ میڈ مصنوعات کی ماہر تھیں۔ ان کے بنے ہوئے اونی سویٹر اور موزے ہم مزے سے پہنتے تھے جو بہت گرم ہوتے تھے۔ وہ میری بہنوں کے لئے لمبے لمبے اونی فراک اور میکسیاں بنتی تھیں۔ اسی طرح وہ کروشئیے سے رنگین پارچے بناتی تھیں۔ لکڑی کے فریم میں کپڑا کس کر بہت عمدہ کشیدہ کاری کرتی تھیں۔ مجید امجد کا شعر یاد آ گیا:
کس انہماک سے بیٹھی کشید کرتی ہے
عروس گل بہ قبائے جہاں گلاب کے پھول
ہمارے گاؤں میں اکثر و بیشتر چیزیں ہینڈ میڈ تھیں جو زرعی معاشرے کا خاصہ ہے۔ ہم لوگ روپیہ پیسہ استعمال نہیں کرتے تھے۔ بارٹر سسٹم چلتا تھا۔ ایک پیتل کے بڑے پیالے یا پڑوپے میں گیہوں بھریں، ہٹی پر دوکاندار کو دیں اور بدلے میں مچھیاں، کھجوریں اور دیگر اشیائے خور و نوش لیں۔ دوکاندار بڑے انہماک سے گندم یا کپاس کو پہلے ترازو پر تولتا، پھر اپنے ذہن میں بارٹر سسٹم کا کوئی خود ساختہ فارمولا ترتیب دیتا اور پھر بدلے میں فروخت پیش کرتا۔ نہ کبھی خریدنے والے نے بحث و تمحیص کی اور نہ ہی دوکاندار نے کبھی بھاؤ تاؤ کیا۔ بس اعتبار ہی اعتبار تھا۔
گاؤں میں سب چیزیں گھر کی تھیں، ہینڈ میڈ ۔ انواع و اقسام کی فصلوں سے کھانے پینے کا وافر انتظام تھا۔ کپاس سے لباس، کھیس، لحاف وغیرہ گاؤں کے جولاہے تیار کرتے۔ موچی جوتے بناتے اور مرمت کرتے۔ نائی بڑوں کی شیو اور بچوں کے اعضائے تناسل بناتا۔ کئی بڑے باری باری نائی کا استرا اپنے تہ بند کی ڈب میں رکھ کر گھر بھی لے جاتے تھے۔ یہی نائی مل کر بارات کا کھانا تیار کرتے اور دیگیں چڑھاتے تھے۔ مویشیوں کے باڑے سے دودھ اور پھر دودھ سے بننے والی ہر چیز، کبھی کوئی جانور ذبح کر کے زبردست ضیافت ہو رہی ہے۔ بیلنے کا دستہ گھما کر کپاس سے بنولہ الگ کیا جا رہا ہے۔ بنولے سے تیل نکالا جا رہا ہے۔ چکی چلا کر آٹا پیسا جا رہا ہے۔ دائرے میں بیٹھ کر لڑکیاں ہینڈ میڈ سویاں بنا رہی ہیں۔ ان پوٹے کی سویوں کا ذائقہ ہی الگ تھا کیونکہ ان میں نوجوان لڑکیوں کی پوروں کا لمس شامل ہوتا تھا۔ (کہتے ہیں کہ کیوبا کے سگار میں زیادہ اثر اور لذت تمباکو کی نہیں بلکہ فیکٹری میں کام کرنے والی عورتوں کے زانووں کی ہوتی ہے جن پر پتا رکھ کر وہ سگار کو roll کرتی ہیں۔ اس طرح نسوانی مہک سگار میں سرایت کرجاتی ہے)
گاؤں میں چارپائی کے سیرو پر جندر کا شکنجہ کس کر میدے کی سویاں کچھوں کی شکل میں بنائی جا رہی ہیں، پھر دھوپ میں سکھائی جا رہی ہیں۔ چرخہ چلا کر سوت کی اٹیاں بنائی جا رہی ہیں۔ ٹوکا چلا کر مویشیوں کا چارہ کترا جارہا ہے۔ ایک بڑی سی دھات کی کنالی میں خاکی رنگ کا صابن بنا کر جمایا ہوا ہے۔ شہروں میں لوگ کپڑے پہ صابن لگاتے تھے، گاؤں میں صابن پر کپڑا رگڑا جا رہا ہے۔ میری امی منہ اندھیرے چاٹی میں لسی بلو کر مکھن نکالتیں اور لسی کو ململ کے کپڑے سے نتھار کر پنیر الگ کرتی تھیں جسے چھڈی کہتے ہیں۔ وہ تازہ پنیر نہار منہ مجھے کھلاتی تھیں۔ اب جب میں chadder cheese کے سلائس سے سینڈ وچ بناتا ہوں تو وہ ہینڈ میڈ چیز بہت یاد آتا ہے۔
ہینڈ میڈ مصنوعات بالخصوص کشیدہ کاری کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ تیس ہزار سال قبل مسیح (BC 30,000) کے جو فوسل ملے ہیں ان میں قدیم ترین دست کاری کے آثار ملتے ہیں۔ یہ اس زمانے کے جدید ترین انسان (Cro-Magnons) کی بات ہے۔ اندازہ کیجئے یہ ہینڈ میڈ مصنوعات کتنی پرانی ہیں۔ یہ پتھر کے دور (Paleolithic era) کی حقیقی داستان ہے۔
لاہور میں نظم کی کتاب کی اس تقریب کا بہت لطف آیا۔ برادر محترم خالد احمد کو بہت یاد کیا گیا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ ہم دونوں نے تربیلا ڈیم کی تنہائی میں اڑھائی ماہ اکٹھے گزارے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اس شدھ تنہائی میں خالد احمد نے مجھ سے کتنی باتیں کی ہوں گی اور کتنا علم مجھے عطا کیا ہو گا۔ یہ 1988 کی بات ہے جب میں 28 سال کا تھا۔
زعیم رشید بہت دل نشیں نظم کہتے ہیں۔ وکالت کے شعبے سے ہیں اسی لئے ان کی دلکش شاعری ان کی گہری جمالیات کی وکالت کرتی ہے۔ اس پیارے شاعر کو نظمیہ مجموعے کی اشاعت پر دلی مبارک

وحید احمد
18 ستمبر 2024

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button