حملہ ہوا تھا
سانحہ پی آئی سی کی دعائیہ تقریب کے بعد گھر کے لیے نکلا رکشہ والا پوچھتا ہے کیا وکیل آئے تھے میں نے کہا نہیں وہ کہتا ہے اگر وہ آئیں بھی تو انھیں کبھی معاف نہ کرنا کیونکہ میں حملہ کے وقت وہاں موجود تھا میری آنکھوں کے سامنے وہ سب کچھ ہو رہا تھا جو بچپن میں میری دادی سنایا کرتی تھی تقسیم ہندوستان پر جو سکھ بلوائیوں نے کیا تھا وہ برچھیوں کے ساتھ گھروں میں گھستے جوان تو درکنار بچے بوڑھے اور عورتیں بھی ان کے قہر سے محفوظ نہیں ہوتی تھیں ہر گھر میں کہرام مچ جاتا لاشیں بکھری ہوئی ہوتی اور مارنے والے جشن منا رہے ہوتے یہاں بھی یہی ہوا ہے انسانوں کے روپ میں ایک جتھا ڈنڈے اسلحے کے ساتھ انسانوں پہ چڑھ دوڑا جن سے وہ بھی محفوظ نہیں تھےجو پہلے ہی بستر مرگ پہ تھے مرنے والوں کو مارنا کہاں کا شیوہ یےوہ یہ سب بتاتے ہوئے روہے جا رہا تھااس کے آنسو اس کی سچائی کی دلیل تھے ان باتوں نے مجھےرات بھر سونے نہیں دیا پتہ نہیں تاریخ کے کیا کیا اوراق میرے دماغ پہ دستک دیے جا رہے تھے دنیا میں ظلم کے کیا کیا واقعات ہوئے جن کو آنے والے بھولتے گئے نام نہاد اہل علم تو یہاں تک کہنے لگ گئے ہیں کہ یزید بیگناہ تھا ملا عمر ہیرو تھا کشمیر فلسطین عراق شام افغانستان میانمار اور یمن میں ہونے والے ظلم ان ممالک کے داخلی معاملات ہیں امریکہ اسرائیل انڈیا اور یورپی ممالک سب سے بڑےانسان دوست ہیں اہل علم کے پاس بہت دلیلیں ہوتی ہیں وکلا طبقہ کی روزی روٹی کا انحصار ہی ان دلیلوں پہ ہے کیونکہ جھوٹ کو سج ثابت کرنا ان کے اس فن کا حصہ ہے مجھے یہ ڈر ہے کہ اس فن میں یدطولی! رکھنے والے یہ بات بھی ثابت کر لیں گے کہ پی آئی سی پہ حملہ ہوا ہی نہیں تھا ڈاکٹر علی شریعتی نے کیا خوب کہا ہے جو شہید ہوئے انھوں نے کار حسینی انجام جو زندہ ہیں وہ کار زینبی انجام دیں ورنہ وہ یزیدی ہیں آئیے ہم بھی کار زینبیہ انجام دیتے ہوئے ظلم کو ظلم کہیں اور ہر ظالم کے سامنے ڈٹ جائیں بیشک وہ ہم میں ہی سے کیوں نہ ہو
ناصر جعفری