گھر پیش کیا سر پیش کیے شبیر نے دین بچانے کو
باطل کو مٹایا عالم سے حق پہنچا سارے زمانے کو
ہر سمت سیاہی ظلمت کی بازار لگا تھا وحشت کا
آیا نہ کوئی اس دشتِ سیہ میں روشن دیپ جلانے کو
جس وقت اٹھا کر مشک چلا عباس علم کو تھامے ہوئے
سو تیر چلائے دشمن نے اس شیر خدا کے گرانے کو
شبیر نے لاشا بھائی کا دیکھا تو یہی برجستہ کہا
لو آج کمر میری ٹوٹی عباس تھا ساتھ نبھانے کو
اکبر کا سجانا تھا سہرہ، تھے نقش محمد سے جس کے
مقتل میں بھیجا ابن علی نے دولہا بھی مر جانے کو
خود بال بناتے تھے جس کے شبیر لگا کے اپنے گلے
اس روتی بلکتی بیٹی کو آیا نہ کوئی بہلانے کو
یہ آلِ نبی کا ہے شیوہ یوں نامِ خدا پر ڈٹ جانا
اب کون سوا ان کے بڑھتا باطل کا نشان مٹانے کو
فارحہ نوید