اردو غزلیاتداغ دہلویشعر و شاعری

غضب کیا تیرے وعدے کا اعتبار کیا

داغ دہلوی کی اردو غزل

غضب کیا تیرے وعدے کا اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
وہ دل کو تاب کہاں ہے کہ ہو مال اندیش
انہوں نے وعدہ کیا اس نے اعتبار کیا
نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتا
صبا نے خاک پریشاں مرا غبار کیا
تری نگاہ کے تصور میں ہم نے اے قاتل
لگا لگا کے گلے سے چھری کو پیار کیا
ہوا ہے کوئی مگر اس کا چاہنے والا
کہ آسماں نے ترا شیوہ اختیار کیا
نہ پوچھ دل کی حقیقت مگر یہ کہتے ہیں
وہ بے قرار رہے جس نے بے قرار کیا
وہ بات کر جو کبھی آسماں سے ہو نہ سکے
ستم کیا تو بڑا تو نے افتخار کیا

داغ دہلوی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button