ایک حد سے نہ زیادہ ہمیں سمجھا برسوں
اس نے اوقات میں اپنی ہمیں رکھا برسوں
اب تو دیواروں کے اندر بھی یہ حیرانی ہے
کوئی کرتا ہے کسی سے بھلا ایسا برسوں
ایک تقریر جو پھر ختم نہ ہونے پائی
اس کا چلتا رہا نفرت بھرا جلسہ برسوں
کاٹ ڈالے گا وہ جب چاہے گا اس کی مرضی
سانس کی ڈور کا چلتا ہوا چرخہ برسوں
شرف و حکم کی دستار بھی اس کے سر ہے
جس کی خاطر ہوئے ہم شہر میں رسوا برسوں
بندگی کے لیے اصنام بہت تھے لیکن
وہ تو بس ایک تھا ہم نے جسے پوجا برسوں
دست قدرت نے رکھا آنکھ سے اوجھل اس کو
ہم نے بند آنکھوں سے جس شخص کو دیکھا برسوں
صوفیہ بیدار