دنیائے وفا نام سے آباد رہے گی
گر میں نہ رہوں گا تو مری یاد رہے گی
یارب جو بتوں کی یہی بیداد رہے گی
کاہے کو خدائی تری آباد رہے گی
آ تو بھی مرے ساتھ لحد میں شبِ فرقت
اب کس کے یہاں خانماں برباد رہے گی
صیاد قفس میں مجھے رکھنے سے نتیجہ
میں قید رہوں گا نظر آزاد رہے گی
وہ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں گے کسی کو
جب تک مری حسرت کی نظر یاد رہے گی
ہم سامنے اللہ کے رسوانہ کریں گے
محشر میں تجھی سے تری فریاد کریں گی
محشر پہ رکھے دیتے ہو دیدار کا وعدہ
صورت بھی قمر کی نہ تمھیں یاد رہے گی
قمر جلال آبادی