دیمک زدہ کمرے ہیں ، کچھ موم کی دیواریں ، اک خشک دریچہ اور در کانچ کا ، چھت گیلی
کس آگ میں رہتا ہوں ، یونہی کبھی حیرت بھی آۓ ذرا لے جاۓ اک جائزہ تفصیلی
اہرام بناتا ہوں تہذیب کی نک٘ڑ پر ، تاریخ کے گھوڑوں کی کرتا ہوں سواری میں
آؤ تو کبھی میری رفتار کے ہاتھوں میں ، چھو کر تو ذرا دیکھو صحبت مری نوکیلی
بنیاد میں سایوں کی بجھتی ہوئی قبریں ہیں ، سر پر کئی اڑتی ہیں آفت کی ابابیلیں
پاتال پہ معمولی پہرہ ہے مرا گویا ، افلاک پہ شاید ہے تھوڑی سی پکڑ ڈھیلی
وحشت کے پرستاں میں کیا لطف اٹھاۓ گا تقدیر کی گد٘ی سے اترا ہوا شہزادہ
مایوسیاں رقصاں ہوں جب محفل ِ پرسش میں ، مضراب ہو لوہے کا ، موسیقیاں پتھریلی
میدانی گڈریوں پر ممنوع گزر گاہیں ، خواہش کے علاقوں میں مدت ہی سے ہیں ، ورنہ
اس آس کے جنگل کا ، اک عمر ہوئی ہم نے ، تنکا بھی نہیں توڑا ، لکڑی بھی نہیں چھِیلی
آلام گزاری نے بارود کے برتن میں تاثیر و تمد٘ن کو ، کچھ ایسے کشیدا ہے
کیا لذ٘ت ِ فردا ہو ، اب شہد بھی کڑوا ہے ، کیا پیاس بجھائیں جب ، ہر نہر ہے زہریلی
بدکار کنیزوں سے آباد حرم شب کے ، عی٘اش وزیروں سے معمور محل دن بھر
گھر گھر مری تعزیر ِ تصویر کا چرچا ہے ، اس رنگ ِ کثافت سے رگ رگ ہے مری نیلی
کیا عمر فرشتوں سی ، کیا اجر عبادت کا ، کیا عادت و شہوت بھی ، کیا نعمت و نذرانہ
لمحہ کہ بہم ہم کو ، جو بھی ہوا ، جی ڈالا ، وہ مے کہ میس٘ر بھی ہم کو جو ہوئی ، پی لی
تحلیل تخی٘ل میں ہونا تھا حقیقت نے ، ہر عکس نے ریزوں میں بٹنا تھا ضمیر آخر
آئینے پہ لازم تھا تھوڑا سا تو پتھراؤ ، منظر میں ضروری تھی اک آخری تبدیلی
ضمیر قیس