- Advertisement -

کورونا میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی خدمات

ایک اردو کالم از منزّہ سیّد

کورونا میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی خدمات

کرہءِ ارض پر کوئی ذی ہوش انسان ایسا نہیں جو کورونا کے نام سے واقف نہ ہو،کورونا ایک دہشت ایک خوف ایک ایسا سفاک دشمن کہ جس کے نشانے پر پوری دنیا ہے،جس کی تباہ کاریوں سے نامی گرامی سپر پاورز بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔ہر طرف کاروبارِ زندگی معطل ہو کر رہ گیا،لوگ ایک دوسرے سے ملنے ملانے سے کترانے لگے۔اس وبا ء نے تمام دنیا کے سائنسدانوں کو چاروں شانے چِت کر دیا اور کسی بھی لیبارٹری میں کورونا سے بچاؤ کے لئے حفظِ ما تقدم یا تدارک کی کوئی بھی قابلِ ذکر دوا ایجاد نہ ہو سکی۔بہت سے سائنسدانوں نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اب انسان کو اس وبا ء کے ساتھ رہنے کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہیئے جس کے لئے ماسک پہننا ،بار بار ہاتھ دھونا، چھینکنے یا کھانسنے کی صورت میں منہ پر کہنی رکھنا،ہاتھ نہ ملانا،گلے نہ ملنا،ہر انسان کا ایک دوسرے سے چھ(6) فٹ کے فاصلے پر رہنا،اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانا،اپنا گلا ٹھیک رکھنا اور ہاتھوں پر سینیٹائزرSanitizer یا جراثیم کش محلول لگانا ضروری ہے۔اِس تمام خطرناک وبائی صورتحال میں جو بھاری ذمہ داری عائد ہوئی وہ دنیا بھر کے محترم ڈاکٹروں اور نرسوں نے اپنے کاندھوں پر اٹھائی اور بہت سے ڈاکٹرز اور نرسیں دن رات کورونا کے مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئے۔آئیے !سب سے پہلے وطنِ عزیز سمیت تمام دنیا کے ڈاکٹروں اور نرسوں کو سلام پیش کرتے ہیں اور ان سب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جو دن رات اپنی پیشہ وارانہ خدمات سر انجام دیتے ہوئے اپنی اور اپنے پیاروں کی جانیں تک قربان کرنے سے گریزاں نہیں ہیں۔

اب بات کرتے ہیں کورونا وائرس اور ہمارے غیر سنجیدہ رویے کے بارے میں۔۔یہ وائرس چین کے شہر ووہان سے شروع ہوا اور پوری دنیا میں بیشمار قیمتی جانوں کا ضیاع کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوا،حکومتِ پاکستان نے دیگر ممالک کی طرح اس وبا ء کے پھیلا ؤکو روکنے کے لئے” لاک ڈاؤن” کیا۔جسے بہت سے عاقبت نا اندیش لوگوں نے غلط قرار دے کر مذہبی و معاشرتی اجتماعات کا سلسلہ جاری رکھا،جنھیں منتشر کرنے کے لئے پولیس نے اپنی جانوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھرپور ایکشن لیا ،بیشمار منچلوں کو لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر مار پیٹ کر تنبیہہ بھی کی ،مگر مجال ہے کہ”زندہ دلانِ پاکستان” پر رتی برابر بھی اثر ہوا ہو۔ہم سب نے کورونا کو ایک مذاق کے طور پر لیا۔ بہت سے لوگوں نے اسے اپنی سمجھ کے مطابق ایک” ڈرامہ” قرار دیا کہ جس کا مقصد کسی خاص ویکسین کے ذریعے انسانوں میں کوئی ”چِپ” لگا کر کسی انجانی یا اَن دیکھی طاقت کے تابع کرنا ہے اور ہر طرف ڈیجیٹل کرنسی کا نظام نافذ کرنا ہے۔ڈیجیٹل کرنسی نظام کے نفاذ کی بحث الگ ۔۔۔یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ اس عالمی سازش کی حقیقت کیا ہے ۔۔؟

سوچنے کی بات یہ ہے کہ چِپ لگا کر تمام انسانوں کو کسی خاص طاقت کا غلام بنانے کا منصوبہ قابل عمل بھی ہے یا نہیں ۔۔؟اس قسم کی مختلف افواہیںپھیلانے والوں کی سوچ کے صدقے جائیے جنہوں نے پروپیگنڈہ کرتے وقت ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ کیا چین،جاپان،امریکہ،برطانیہ،روس اور فرانس جیسی سپر پاورز اپنی عوام کو ایک دوسرے کی غلام بنانے پر راضی ہو جائیں گی۔۔؟ یا خود پر ایک دوسرے کا تسلط برداشت کریں گی۔۔؟

رہی بات پاکستان کی تو بے انتہاء افسوس اور معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم جیسی غیر سنجیدہ اور غیر ملکی قرضوں میں بال بال جکڑی ہوئی قوم کو کسی نے ذہنی غلام بنا کر کیا حاصل کرنا ہے،ہم تو لفظوں کے فاتح اور اعمال کے شکست خوردہ لوگ ہیں جو محنت سے آنکھ چرا کر چھٹیوں پر خوش ہوتے ہیں۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کورونا ایک حقیقت ہے..اسے مذاق ،افواہ یا غیر ملکی سازش کے طور پر مت لیجیئے۔یہ صرف ہمارے لئے نہیں آیا پوری دنیا اِس کی لپیٹ میں ہے۔ان سے جا کر پوچھیئے کہ جن کے گھر کے افراد اس وباء کا شکار ہو کر دنیا سے چلے گئے۔ان قابلِ صد احترام ڈاکٹروں اور نرسوں سے پوچھیئے اور انھیں سلام پیش کیجیئے کہ جو دن رات کورونا کے خلاف حالتِ جنگ میں ہیں اور دن رات مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔

خدارا !گلیوں بازاروں میں مجمع یا رش لگانے سے اجتناب کیجئے۔بلا ضرورت گھر سے باہر مت نکلیئے۔باہر نکلنے کی صورت میں سماجی فاصلے یا سوشل ڈسٹینس کا خیال رکھیئے۔رحم کیجئے خود پر اور دوسروں پر۔۔رحم کیجئے اپنے غریب ملک پر جو قلیل وسائل کے باوجود ہمیں سنبھالے ہوئے ہے۔۔رحم کیجئے ڈاکٹروں اور نرسوں پر ۔۔کہ جب کورونا کے تصدیق شدہ مریض سے اِس کے خونی رشتے بھی دور بھاگ رہے ہوتے ہیں تو یہ لوگ آگے بڑھ کر اس کی دیکھ بھال اور علاج کرتے ہیں۔اِس وائرس سے بچنے کے لئے ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کیجئے ،وطنِ عزیز میں کورونا کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد خطرناک حد تک تجاوز کر چکی ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد چین کے مریضوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہو چکی ہے۔

اب ہمیں اللہ پاک کے حکم کے ساتھ صرف اور صرف احتیاطی تدابیر ہی کورونا سے بچا سکتی ہیںورنہ چین،اٹلی،امریکہ اور سپین جیسے باشعور اور امیر ملکوں کا حال تو ہم سب کے سامنے ہی ہے۔

سوچیئے !کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے اور حالات ہماری گرفت سے باہر نکل جائیں اور پچھتاوے کے سوا ہمارے دامن میں کچھ بھی باقی نہ رہے۔اللہ پاک ہمیں اور پوری دنیا کے انسانوں کو اس مہلک وائرس سے محفوظ فرمائے اور معجزانہ طور پر اِسے کرہِ ارض سے نیست و نابود فرمائے..آمین.

منزّہ سیّد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
کاشف حسین غائر کی ایک اردو غزل