شعیب بن عزیز

اب بھی دمک باقی ہے۔ 35 برس ادھر، جب وہ ایک جوان رعنا تھا، ایک بے تکلف دوست کی طرح میں نے اس سے کہا تھا: تم وہ چشمہ ہو، جس کا پانی صحرا کے لیے ہے۔ عجیب آدمی ہے!
ربع صدی ہوتی ہے، زندگی میں پہلی بار ایک ادبی تحریر لکھی، شعیب، ایک مخفی حقیقت۔ زندگی بھر کوئی تحریر یا تصویر نہ سنبھالی۔ شعیب کا حال مجھ سے بھی بدتر ہے۔ آدمی کچھ بھی کھو سکتا ہے۔ کبھی کسی نے اپنے شعر بھی کھوئے ہیں؟
کتنی ہی بار، عصرِ رواں کے کتنے ہی ممتاز لکھنے والوں نے اس کے اشعار کا حوالہ دیا ہے… اور وہ مصرعہ تو ضرب المثل ہو گیا ”اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں‘‘ اس آدمی نے، سب ضروری کام جسے یاد رہتے ہیں، بس یہی ایک بات بھلا دی کہ آدمی اپنے ہنر سے پہچانا جاتا ہے۔

Back to top button