- Advertisement -

بتوں سے آنکھ کیوں میں نے لڑائی

میر تقی میر کی ایک غزل

بتوں سے آنکھ کیوں میں نے لڑائی
طرف ہے مجھ سے اب ساری خدائی

نرا دھوکا ہی ہے دریاے ہستی
نہیں کچھ تہ سے تجھ کو آشنائی

بگڑتی ہی گئی صورت ہماری
گئے پر دل کے پھر کچھ بن نہ آئی

نہ نکلا ایک شب اس راہ وہ ماہ
بہت کی ہم نے طالع آزمائی

کہا تھا میں نہ دیکھو غیر کی اور
سو تم نے آنکھ مجھ سے ہی چھپائی

نہ ملیے خاک میں کہہ کیونکے پیارے
گذرتی ہے کڑی تیری جدائی

جفا اس کی نہ پہنچی انتہا کو
دریغا عمر نے کی بے وفائی

گلے اس مہ نے لگ کر ایک دو رات
مہینوں تک مری چھاتی جلائی

نہ تھا جب درمیاں آئینہ تب تک
تھی یک صورت کہ ہو جاوے صفائی

نظر اس کی پڑی چہرے پر اپنے
نمدپوشوں سے آنکھ اب کب ملائی

بڑھائی کس قدر بات اس کے قد کی
قیامت میر صاحب ہیں چوائی

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
منزّہ سیّد کی ایک غزل